عورت بلاشبہ اللہ کی ایک بہترین تخلیق ہے لیکن ازل سے ہمیشہ تنقید کا نشانہ یا ظلم کا شکار رہی ہوتی چلی آئی ہے اپنے وجود میں آنے کے کچھ عرصے بعد ہی جنت سے نکلوانے کا الزام لگ گیا جس نے بہکایا اس کی طرف کسی نے دیکھا بھی نہیں لیکن جو بہکاوے میں آ گئ اسے صفائی کا موقع تک نہیں ملا عورت کو زحمت سمجھا گیا بےوقوف کہا گیا گھر میں بوجھ قرار دیا گیا حتیٰ کے دور جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ستی کی رسم عام تھی جبکہ اس دور میں بھی خون بہا کے بدلے میں بچیوں اور عورتوں کے لئے ونی جیسی رسم موجود ہے قبائلی علاقوں میں آج بھی جائیداد کی خاطر عورتوں کا نکاح قرآن پاک سے کردیا جاتا ہے انہی منفی رویوں کی بدولت خواتین کے حقوق اور ان کا تحفظ سلب کئے جانے کا سلسلہ تاحال جاری ہے
آج خواتین تقریبا ہر پروفیشن میں قدم رکھ چکی ہیں چاہے وہ ڈاکٹر ہو یا انجینئر استاد ہو یا رائٹر جرنلسٹ ہو یا پائلٹ یا سیاست اور میڈیا خواہ ہر میدان میں مرد کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں مگر اتنی بلندیوں پر پہنچ کر بھی اپنے حقوق اور عزت کو مرد کی غلیظ نظر محفوظ نہ کر سکی۔ دورِ جدید میں حوا کی بیٹی محفوظ نہیں آج بھی آسمان کو چھونے والی خواتین کو زمین پر پٹخ دیا جاتا ہے جبکہ عورت تو نازک پھول کی مانند ہے جو چھونے سے اور ٹہنی سے توڑنے پر مرجھا جائے ان کا تحفظ انتہائی ضروری ہے عورت کے کئی روپ ہیں جن میں بیک وقت ماں ہے تو جنت بہن ہے تو عزت بیوی ہے تو گھر کی زینت اور بیٹی ہے تو رحمت پس ان تمام حوالوں کے پیش نظر وہ ہر درجہ عزت و وقار اور مرتبے کے قابل ہوتی ہے اسی فطری ضرورت کے پیش نظر اسلام عورت کی عزت کی تاکید کرتا ہے کیونکہ یہ حوّا کی بیٹی کا معاملہ ہے 8مارچ دنیا بھر میں عورتوں کے لیے اتحاد و یکجہتی اور جہد مسلسل کی علامت ہے یہ دن خواتین کے حقوق کی جدوجہد کی یاد دلاتا ہے آٹھ مارچ کو خصوصاً خواتین کا دن مقرر کیا گیا ہے مگر ان کے حقوق اور تحفظ کیلئے صرف ایک دن مختص کر دینا کافی نہیں بلکہ تب تک ان کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنے چاہیے جب تک وہ مکمل طور پر معاشرے میں محفوظ نہ ہو سکیں۔ اسلام تو عورت کی عزت اور توقیر کا درس دیتا ہے عورت کی عزت و وقار کا تحفظ اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ ایک عورت کی بے توقیری اور بھی عزتی بیک وقت کئی حوالوں سے معاشرے کے دیگر افراد کو براہ راست متاثر کرتی ہے اگر غیر جانبداری کی عینک سے دیکھا جائے تو ماضی میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال قابل دید اور قابل تعریف نہیں رہی انسانی حقوق کی پامالی کی صورت میں عورتیں زیادہ متاثر ہوئی ہیں گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والی عورتیں دور جدید میں بھی غلیظ نظریں تضحیک اور تحقیر آمیز جملے برداشت کرتی ہیں کیونکہ تاحال ہمارا معاشرہ مرد کا ہے اور حوّا کی بیٹی غیر محفوظ ہے عورت کی عزت و توقیر حتی کے معصوم ننھی کلیوں کو روند دیا جاتا ہے اسی لیے خواتین کا تحفظ ملکی معاشرتی اور سماجی ترقی کے لئے انتہائی ضروری ہے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا خواتین کے خلاف تشدد اور ان کے تحفظ کیلئے کئے گئے خطاب میں سے چند اہم نکات قابل ذکر ہیں ۔ غیرت کے نام پر قتل اور زیادتی اور ہراساں کرنے کے واقعات کا خاتمہ ضروری ہے عورتوں اور بچوں کےخلاف جرائم کا خاتمہ کرنا ہوگا پارلیمنٹ میں عورتوں کے خلاف جرائم روکنے کے لیے موثر قوانین بنائے جائیں عورتوں اور بچوں کے خلاف مقدمات کا فیصلہ چھ ماہ میں ہوجانا چاہیے خواتین کو شریعت کے مطابق ان کا وراثت میں حصہ ملنا چاہئے خواتین کو بااختیار بنائے بغیر اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے ان معاملات پر حکومت اور اپوزیشن کو مل کر کام کرنا چاہیے سماجی مسائل پر میڈیا کو اہم کردار ادا کرنا چاہیے عورت مرد کے ہم پلہ ہونے کی سعی میں اپنا مقام کھوتی جا رہی ہے اسی لئے مرد اور معاشرے کو مل کر ان کا تحفظ کرنا ہوگا میرا ایک سوال ہے خدا جانے یہ مرد کی کون سی قماش ہے جو کبھی باپ بن کر ظالم بن جاتا ہے تو کبھی شوہر اور بھائی بن کر اپنے غصے کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے یہ کیوں اپنی نام نہاد اناء کو عورت کا خون پلاتے رہتے ہیں کیوں عزت عزت کہہ کر عورت کے ماتھے پر بےعزتی کا داغ لگا دیتے ہیں کیا سکون ملتا ہے معصوم چہروں کو تاریکی کی چادر میں چھپا کر یہ نام نہاد مرد کیوں نہیں سمجھتے کہ ہم عورتیں بھی انسان ہیں نرم احساسات رکھنے والی مخلوق تلخ لہجوں سے مر جانے والی تو پھر یہ کیوں ٹہنی سے توڑ کر روند دیتے ہیں کچل دیتے ہیں عورت کا تحفظ یقینی بنانا تو مرد کی صفت میں رگِ خون کی مانند ہونا چاہیے جو کہ اب تو ناپید ہوچکا ہے عورت کا استحصال بند کریں اتنی سی دعا ہے کہ کبھی کسی بیٹی پر کوئی داغ نہ لگے آمین! وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِدروں
0 کمنٹس:
Post a Comment