728x90 AdSpace

  • تازہ ترین

    Saturday, October 28, 2023

    کہیں اشتہار نہ ہو جائے / ڈی بریفنگ

    Shamshad Mangat

     صرف ڈیڑھ دو ماہ پہلے کی بات ہے کہ پی آئی ڈی سے جب کوئی اشتہار ہمارے آخبار کے لئے کنفرم ہو جاتا تھا تو دل بے قرار کو کچھ قرار مل جایا کرتا تھا لیکن پھر یوں ہوا کہ وزارت اطلاعات میں نئے وفاقی وزیر اور سیکرٹری کا "ظہور" ہوا اور ہم لوگ اس پر بہت نازاں تھے کہ اب ہمیں ہفتے میں بار بار اشتہار ہوا کرے گا اور خوشحالی دروازے کے باہر دستک دینے والی ہے مگر پہلے تو اشتہار ہونا تقریبآ بند ہو گئےاور پھر رفتہ رفتہ کئی اور راز کھلنے لگے کہ اب اشتہار ہر کسی کو نہیں ہوا کرے گا بلکہ مخصوص لوگوں کو مخصوص طریقے سے اشتہارات ہونے لگے اور ریجنل اخبارات کو "ایام مخصوصہ" میں بھی اشتہارات ہونا بند ہو گئے۔ایام مخصوصہ سے مراد وہ خاص دن جب پی آئی ڈی زیادہ اشتہارات جاری کرتی ہے اور چھوٹے اخبارات کو جب "ایام مخصوصہ" میں اشتہارات نہ ہوئے تو یہ خبر پھیل گئی کہ چھوٹے اخبارات کی اکثریت کو بانجھ کر دیا گیا اور اب ان کی گود کسی اشتہار سے ہری نہیں ہوگی۔
    ان " حالاتِ مخصوصہ" میں محترم خوشنود علی خان اور برادرم عقیل ترین نے باقاعدہ حزب اللہ اور حماس کی شکل اختیار کر لی ۔عقیل ترین نے چھوٹے چھوٹے اخبارات کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والے ٹولے کے خلاف اپنے "غزنوی"کو میزائل کے طور پر استعمال کیا اور اپنی قلم کی نوک پر "وار ہیڈ" لگا کر انہوں دشمن کے ٹھکانوں کو لگاتار نشانہ بنایا اور دوسری طرف استاد محترم کا "ناقابل اشاعت" بھی دشمن کے لئے بہت  مہلک ثابت ہوا۔
    میرا یہ ذاتی خیال تھا کہ "صحافت "اور "غزنوی" چونکہ اجتماعی جنگ لڑ رہے ہیں لہٰذا وزارتِ اطلاعات کے کرتا دھرتا بیچ بچاؤ کا فارمولا نکالیں گے لیکن جب "غزنوی"کو میڈیا لسٹ اتار دیا گیا اور " صحافت" کو دھمکی آواز خط لکھا گیا کہ اگر اشتہارات کے لئے دباؤ ڈالا گیا تو پہلے مرحلے میں اخبار میڈیا لسے سے اترے گا اور دوسرے مرحلے میں اخبار کے مالک کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا جائے گا۔تو میرے ذہن میں یہ بات گھومنے لگی کہ جنگ میں مخالف فریق کے بچوں پر وار کرنا اسرائیلی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔اور یہ سوچ اس لئے زیادہ پختہ ہوئی کہ ریڈیو پاکستان سے سازشی لوگوں نے اسرائیل کے حق میں نیوز بلیٹن چلوا دیا گیا۔
    البتہ اشتہارات کے معاملے میں  قانونی کارروائی یہ ہو سکتی کی فلاں اخبار کے مالک یا اس کے نمائندوں نے اشتہارات کے لئے حراساں کیا اس لئے  حراساں کرنے کے جرم میں ان تمام کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔
    یہ سن کر اور پھر سوچ کر میرے تو "اعضائے رئیسہ" سکڑ کر رہ گئے اور بد حالی کے اس دور میں یہ ظالم بھی ساتھ چھوڑتے ہوئے دکھائی دئیے.
    اس کی بنیادی وجہ یہ ہے ہمارے پاس تو اس کے علاوہ اور کوئی روزگار بھی نہیں اور سرکار اگر اس طرح سوچے گی تو پھر ہماری تو ہر شام "شام غریباں" ہو جائے گی۔"اعضائے رئیسہ پر برے اثرات کی دوسری بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ پی آئی ڈی سےاگر رات کو کو ہمیں اشتہار ہو جاتا ہے تو اگلی صبح سرکار کی مدعیت میں تھانہ آبپارہ میں مقدمہ بھی درج ہو سکتا کہ یہ اشتہار دباؤ ڈال کر ہو اہے اور ہم کیسے ثابت کریں گے یہ اشتہار حراسگی کا نتیجہ نہیں اور مستقبل میں اگر پی آئی ڈی کی کسی خاتون اہم عہدیدارنے درخواست دے ماری تو اشتہارات حراسگی کے ساتھ جنسی حراسگی کا الزام بھی شامل ہو جائے گا ۔اور ویسے بھی آبپارہ کا نام آتے ہیں کمزور لوگوں کچھ اعضاء ساکن ہو جاتے اور کچھ اعضاء کانپنے لگتے ہیں ۔
    چونکہ سرکار کے پاس مدعی بھی بے شمار اور گواہ بھی بے شمار ہوتے ہیں ۔ہمارے تو اپنے ساتھی مقدمہ درج ہونے سے پہلے ہی کہنا شروع ہو جاتے ہیں کہ آپ  کو کہا بھی تھا ہمیں بتا کر اشتہار مانگنا۔اس لئے مجھے تو اب ڈر لگا رہتا ہے کہیں اشتہار نہ جائے۔کیونکہ تازہ ترین ضابطے کے مطابق مال اور طاقت والے سارے اشتہار لے جائیں گے۔بہرحال مجھے اشتہارات بحالی سے زیادہ اس وقت اپنے اعضائے رئیسہ کی بحالی میں دلچسپی ہے اور میں اگر وزارت اطلاعات کے خلاف عدالت گیا تو اشتہارات کے لئے نہیں بلکہ اپنے اعضائے رئیسہ کی بحالی اور علاج کے لئے جاؤں گا اور ویسے بھی ایک اشتہار اچھے بھلے اخبار نویس کو "اشتہاری" بنا سکتا ہے.

    • Blogger Comments
    • Facebook Comments

    0 کمنٹس:

    Post a Comment

    Item Reviewed: کہیں اشتہار نہ ہو جائے / ڈی بریفنگ Rating: 5 Reviewed By: Danish Ali
    Scroll to Top