کسی کے دُؐکھ پہ میری آنکھ کیوں نہ بھر آئے
ہیں سارے جسم میرے، ساری صورتیں میری
(معین تابش، جھنگ)
حکمران، صحافتی سیٹھ اور کمپنی، پتا نہیں اور کتنا گریں گے۔ میں تو صحافی ،قلم کار ہونے اور صحافت پر ہی پرمندہ ہوں۔ 9 مئی کے بعد، اس ملک میں غداری اور وفاداری کے جو نئے معیارات قائم کئے گئے ہیں۔ وہ ایک دن ریاست کو ضرور ہڑپ کر جائیں گے۔ ہو سکتا ہے اس دن ہماری یہ لائنز سنانے کے لیے ہم ہی نہ ہوں۔
کسی ’’محافظ‘‘ نے تاقیامت زندہ اور اقتدار میں نہیں رہنا۔ تاریخ یہی بتاتی ہے۔ اس ملک میں ظلم و بربریت کی جو نئی داستانیں لکھی گئی ہیں۔ جب وہ باہر آئیں گی تو، شایدیہ بےحس قوم بھی روئے۔ جس کا کہ امکان، ہی نہیں ہے۔ ایک بات طے ہے کہ ہم جلد ہی ’’کوفیوں‘‘ کو ضرور مات دے دیں گے۔
مجھے بطور حکمران اور سیاسی لیڈر کے عمران خان سے ذرا بھی ہمدردی نہیں ہے۔ وہ بھی نواز شریف، زرداری کی صفوں کا ہی مسافر ہے۔ بس رینکنگ میں، ایک دو، درجے نیچے ہوگا۔
برادرم رئوف کلاسرہ نے کار کے رینٹل میں، جہاں راجہ رینٹل سمیت، بہت سوں کو ننگا کیا ہے۔ وہیں پر طیب اردوان اور عمران خان بھی خوب بے نقاب ہوئے ہیں۔ ’’بجلی کیوں مہنگی ہوئی‘‘ پر، رئوف کلاسرہ کے گیارہ کالم، ’’ون گو‘‘ میں پڑھنے پر مجبور ہوگیا۔ انھوں نے نواز شریف، بے نظیر، اسحاق ڈار، شہبار شریف، زرداری، ان سب کے حواری اور بابو، کمال طریقے سے بے نقاب کئے۔
رئوف کلاسرہ کے یہ ’’شاہکار کالمز‘‘ ہر پاکستانی کو ضرور پڑھنے چاہئیں اور اس کی روشنی میں اپنی رائے، بنانے کا کام بھی ٗضرور بہ ضرور کرنا چاہئے۔
ایسا نہیں ہے کمپنی اور کمپنی کے سی۔ ای۔ اوز اور جی۔ ایم صاحبان کا اس میں کردار نہیں ہے۔ وہ بھی الگ کہانی ہے۔بہتر ہے اس پر بھی برادرم حروف کلاسرا ہی روشنی ڈال دیں۔ ”رہ گیا کام تمہارا ہی بغاوت لکھنا“
خیر، بات دوسری طرف جانکلی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما، میاں عباد فاروق کے نو سال کے بیٹے کی کومہ میں موت واقع ہوئی ہے۔ ان کے گھر والوں کا الزام ہے۔ اس کے سب سے بڑے ذمہ دار نو مئی کا آپریشن چلانے والے ہیں۔ جن کی بربریت، ایک معصوم بچے کونگل گئی۔ یہ ایشو، بہت دنوں سے سوشل میڈیا پر تھا۔
قانون نافذ کرنے والے۔ ادارے، بطور خاص، پنجاب پولیس کا اعلیٰ ٹریک ریکارڈ، سب کو یقین دلانے کے لئے کافی ہے۔
ایک ماں کی گود اجڑ چکی ہے۔ باپ کا لاڈلا دنیا میں نہیں رہا۔ عمار فاروق، اپنے رب کے حضور حاضر ہوگیا۔ ریاست پاکستان کے خلاف، آسمانوں پر، ایک اور ایف۔ آئی۔ آر درج ہوگئی۔
یقینی طور پر، وہاں پر موجود، سرد خانے کی نظر ہوچکی ہوگی۔ ایسا لگتا ہے وہاں پر بھی پاکستانی بابوں کا قبضہ ہے ضرور وہاں پر بھی کوئی فواد حسن فواد چیمہ اور ڈاکٹر توقیر بیٹھا ہوگا۔
اللہ نے بھی لگتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والی، خلق سے منہ موڑ لیا ہے۔ اس نے ہر صاحب اختیار کو کُھلی چھٹی دے دی ہے۔
شاید !!! بے حس قوموں کے لئے، اس کا یہی پیمانہ ہے۔ اور یقینی طور پر ٹھیک بھی ہے۔
قارئین!!!
عمار فاروق، جیسے، معصوم تو روزانہ ہی، اس ملک میں قربان ہورہے ہیں۔ ریاست، سیاست اورمعاشرے کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
ہمیں تو ویسے بھی بھولنے کی نہیں، فراموش کرنے کی بیماری ہے۔ اے۔ پی۔ ایس سے لیکر، سانحہ ساہیوال اور عمار فاروق تک یہی ہمارا ٹریک ریکارڈ ہے۔
ویسے بھی ہم دشمن کے بچوں کو پڑھانے میں مصروف ہیں۔ حکمرانوں کو ڈالر سے لیکر، بجلی، گیس، چوری سمیت، مسائل ہی مسائل ہیں۔
عدالتوں میں نئے کٹے کُھلے ہوئے ہیں۔ منصف مصروف ہی بہت ہیں۔
اور اب تو لائیو کوریج کا نیا، کٹا بھی کھل گیا ہے۔ تمام دن ٹی۔ وی اسکرینز پر سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس اور معزز جج صاحبان چھائے رہے۔ قوم پہلی بار مبہوت ہو کر اپنے عظیم ججز اور بے مثال قانون دانوں کو دیکھتی رہی۔ یقین مانیے، سب ’’دلدر‘‘ دُور ھو گئے۔
ڈولی کے بعد، فُل بینچ نے، کمال طریقے سے قوم کو مصروف اور ٹی وی اسکرین پر قبضہ کیے رکھا۔
اس دوران سی۔ ڈی۔ اے نے مصرف قوم کی مصروفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، اہم فریضہ سر انجام دے دیا۔ ڈیفنس کمپلیکس اسلام آباد، جی، وہی، اپنا نیا پینٹاگون، میرا مطلب ہے، نیو جی۔ ایچ۔ کیو کے لئے، ہزاروں ایکڑ زمین میں سے سینکڑوں ایکڑ، پر قابض، لوگوں کے خلاف آپریشن رد الفساد کرکے، دو گائوں خالی کروا لئے۔ قوم شکر کرے۔ یہاں پر عیسائی کمیونٹی نہیں تھی۔ وگرنہ لینے کے دینے ، پڑ جاتے۔ یہاں کے شرپسند مکین، ڈنڈے، پتھر لیکر مارگلہ روڈ پر نکل آئے۔ پتھرائو کیا، شیشے توڑ دیئے۔ قانون کے محافظوں نے پھر بھی تحمل کا مظاہرہ کیا۔ وگرنہ، انھیں بھی نو مئی والا مزہ تو چکھایا جاسکتا تھا۔
میڈیا کی اکثریت نے، مثبت رپورٹنگ اور قومی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے۔ اس خبر سے اجتناب ہی برتا۔ جیسے عمار فاروق کی خبر سے برتا گیا۔
یقین مانیے!!! دل ’’خوش‘‘ ہوگیا۔
سپریم کورٹ کی لائیو کوریج کے بعد، قوم کے لئے انصاف کے جو نئے دروازے کُھلے ہیں۔ وہ تو کمال ہیں۔
میرا مشورہ ہے کہ سپریم کورٹ، ایس۔ سی۔ ٹی۔ وی لائیو کے نام سے نیا چینل کھول لے۔
اس کے لئے، بجلی کے بلوں میں 35 روپے مزید لگا دیئے جائیں۔ سپریم کورٹ ٹی۔ وی کو نو ارب سالانہ سے زائد فنڈز ملیں گے۔ چند کروڑ کے کیمرے اور ایک درجن سٹاف کافی ہے۔
نو ارب معزز جج صاحبان میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کر دیئے جائیں۔ مسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔ پارلیمنٹ کو یا نگرانوں کو پنجاب حکومت کی طرح اشارے کی دیر ہے۔ فوری آرڈیننس آجائے گا۔ فی جج پچاس کروڑ روپے سالانہ سے زائد رقم مل سکتی ہے۔ سوچ لیں۔ اب جبکہ حلف سے لیکر لائیو کوریج کی نئی روایات قائم ہورہی ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ قوم کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ تیز رفتار انصاف کی فراہمی کے براہ راست مناظر سے، نچلی عدالتیں ، کمال حوصلہ پکڑ سکتی ہیں۔ وکلاء صاحبان بھی مہذب رویئے اختیار کرنے پر مجبور ھونگے۔ قوم یہی کچھ تو چاہتی ہے۔
سیاستدانوں کو ریلیف ملنا چاہیئے۔ میرے مُنہ میں خاک، میں عمران خان کو سیاستدانوں میں قطعاً شامل نہیں کررہا۔ میں تو میاں نواز شریف، زرداری، راجہ ریاض کو ’’سیاست دان‘‘ سمجھتا ہوں۔ مولانا فضل الرحمٰن اور طاہر اشرفی کو ’’علماء‘‘ سمجھتا ہوں۔
اب 99 فیصد لوگ تو پی۔ ڈی۔ ایم، اس کے اتحادیوں اور کمپنی کے ساتھ ہیں۔ باقی اعشاریہ 99 فیصد لوگ، دماغی طور پر متوازن ہی نہیں ہیں۔ میرا مطلب ہے ان کے دماغ میں کیمیکل لُچا ہے یعنی سنتولن گڑبڑ ہے
دیکھیں نا!!! تین ہزار دن گزرنے کے بعد بھی اپیل نواز شریف کا حق ہے۔ کیسا ٹائم بار، ہاں حدیبیہ پر ٹائم ضرور لگنا چاہئے تھا۔اسحاق ڈار جیسے 164 کا بیان دینے والے شریف النفس کا ریلیف تو بنتا تھا نا۔13 ماہ میں انہوں نے اس ملک کی معیشت کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔وہ تو جنرل باجوہ نے گڑبڑ کرتی ورنہ ڈالر آج نو روپے کا ہوتا۔
بہرحالہماری معزز عدالتوں نے کمال کر دیا۔
ہم مستقبل میں بھی ایسے معجزات دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ عدالتوں کو نو مئی میں ملوث غداروں سے ریاستی اداروں کی طرح قطعاً رعایت نہیں کرنی چاہئے۔ تاکہ شرپسند اور غدار اس قوم کی معاشی ترقی کی منزل کھوٹی نہ کرسکیں۔
جی البتہ، جو، گناہ کے کفارے میں تجدید ایمان کرتے ہوئے، پریس کانفرنس کرلیں۔ انھیں ضرور معافی دے دینی چاہئے۔ یہ عین اسلامی اور 1973 کے آئین کی تناظر میں احسن اقدام ہے۔ چیف جسٹس کو چاہئے۔ وہ قابل تکریم، محترمہ سرینہ عیسیٰ کو اسد طور کی طرح عمار فاروق کے گھر بھیج کر، اس قضیے کو ختم کریں۔ تاکہ ریاست کی نیک نامی ہو۔
اور حُضور کے انصاف کا بول بالا ہو
عجب کردگاری ”موج“ کی ہے
ہزاری در ہزاری ”موج“ کی ہے
میں ایسے کھیل کے میدان میں ہوں
جہاں ہر باری ”موج“ کی ہے
کہیں تم کو بھی نہ روند ڈالے
ہٹو بچو سواری ”موج“ کی ہے
0 کمنٹس:
Post a Comment