رواں برس 5 ستمبر کے بعد سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 9 فیصد کا اضافہ، عالمی سطح پر قیمتوں میں کمی آئی لیکن نقل و حمل کے اخراجات میں بھی کمی کے باوجود اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں صارفین کو تقریباً 2 ماہ کے دوران کوئی بڑا ریلیف نہیں مل سکا۔ رپورٹ کے مطابق ایک ڈالر 5 ستمبر کو 307 روپے 10 پیسے پر ٹریڈ کر رہا تھا جوکہ اب 280 روپے پر آچکا ہے، اس سے درآمد شدہ خام مال اور تیار سامان کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔
ڈیزل کی قیمتوں میں بھی کمی کا رجحان دیکھا گیا، یکم ستمبر کو اس کی قیمت 311 روپے فی لیٹر تھی جو 16 ستمبر کو بڑھ کر 329 روپے ہوگئی، پھر یکم اکتوبر کو یہ گر کر 318 روپے پر آگئی اور فی الحال اس کی قیمت 303 روپے فی لیٹر ہے، اس سے ٹرانسپورٹرز کے لیے سامان کی نقل و حمل کے اخراجات میں کمی آئی یا کم از کم یہ اخراجات ان کے لیے قابل انتظام ہوگئے۔خوردہ فروش روپے کی قدر میں کمی اور سامان کی نقل و حمل کے بلند اخراجات کے اثرات صارفین پر فوری طور پر منتقل کرتے ہوئے کوئی رحم نہیں دکھتے لیکن جب نرخوں کو کم کرنے کا موقع آئے تو بہت سست روی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔شوگر مافیا، ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف مؤثر کریک ڈاؤن کی بدولت چینی کے نرخوں میں صارفین کو فوری ریلیف ملا ہے، جس سے تھوک اور پرچون کی دکانوں پر بھی قیمتوں میں کمی آئی ہے، چینی کی ہول سیل قیمت ستمبر کے پہلے ہفتے کے دوران 174 روپے تھی جوکہ اب کم ہو کر 123 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے ۔
ایس پی آئی کے اعداد و شمار مختلف دالوں کے خوردہ نرخوں (ریٹیل پرائس) میں ملا جلا رجحان ظاہر ہوتا ہے، مسور، مونگ، ماش اور چنے کی دال کی خوردہ قیمت 300 سے 360 روپے، 280 سے 320 روپے، 520 سے 580 روپے اور 220 سے 260 روپے فی کلو رہی جبکہ ستمبر کے پہلے ہفتے کے دوران یہ 320 سے 360 روپے، 280 سے 320 روپے، 540 سے 580 روپے اور 240 سے 280 روپے فی کلو گرام رہی۔
مسور، مونگ، ماش اور چنے کی دال کے ہول سیل نرخ بالترتیب 330 روپے، 265 روپے، 520 روپے اور 226 روپے فی کلو سے کم ہو کر 260 روپے، 240 روپے، 470 روپے اور 200 روپے فی کلو ہو گئے۔دالوں کی درآمد مالی سال 2024 کے ابتدائی 3 ماہ میں بڑھ کر 3 لاکھ 86 ہزار 837 ٹن ہوگئی جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 3 لاکھ 16 ہزار 537)ٹن تھی، فی ٹن کی اوسط قیمت 777 ڈالر سے گھٹ کر 628 ڈالر ہوگئی۔
گھی/کوکنگ آئل مینوفیکچررز نے پچھلے 2 مہینوں کے دوران قیمت میں 80 سے 100 روپے فی لیٹر کمی کا دعویٰ کیا ہے لیکن ایس پی آئی کے اعداد و شمار گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں معمولی کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ہول سیلرز چاول کی مختلف اقسام کی قیمتوں میں 15 سے 80 روپے فی کلو کمی کا دعویٰ کررہے ہیں، دوسری جانب کمشنر کراچی کے سخت ایکشن نے دکانداروں کو تازہ دودھ 220 یا 230 روپے کے بجائے 200 روپے فی لیٹر پر فروخت کرنے کا پابند کردیا ہے، شہر بھر میں ان کی دکانوں پر سرکاری نرخ نمایاں کیے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دودھ فروشوں کو بھاری جرمانے اور گرفتاری کا ڈر ہے۔
ایس پی آئی کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ درآمد شدہ گندم کی آمد کے پیش نظر 20 کلو آٹے کی قیمت 3 ہزار سے 3200 روپے سے کم ہوکر 2700 سے 3 ہزار روپے تک آگئی ہے، نجی شعبے نے ستمبر میں ایک لاکھ 62 ہزار 301 ٹن اناج درآمد کیا تھا، امید ہے کہ اکتوبر میں مزید 5 لاکھ ٹن پہنچ جائے گا۔مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ مختلف مصنوعات پر ہول سیلرز کا 5 فیصد اور خوردہ فروشوں کا 10 فیصد کمیشن ہونا چاہے لیکن جن اشیا پر قیمتیں درج نہیں ہوتیں اس کا خوردہ فروش فائدہ اٹھاتے ہیں اور 30 سے 40 فیصد تک منافع کمالیتے ہیں۔
قیمتوں میں اضافے کے رجحان کے دوران خوردہ فروش کھلی اشیا کی فروخت میں اضافی منافع کماتے ہیں، یہ چیز کریک ڈاؤن سے پہلے خاص طور پر چینی، گندم اور آٹے کی فروخت میں دیکھی گئی۔کراچی ہول سیلرز گروسرس ایسوسی ایشن کے چیئرمین رؤف ابراہیم نے کہا کہ کریک ڈاؤن کا دائرہ چینی اور گندم سمیت دیگر اجناس مثلاً چاول اور دالوں وغیرہ تک بڑھایا جانا چاہیے تاکہ ان کی قیمتوں میں کمی آسکے۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ فلور ملوں کو گندم کا کوٹہ ختم کر دے اور غریب لوگوں کی مدد کے لیے ضبط شدہ چینی 90 روپے فی کلو فروخت کرے۔
0 کمنٹس:
Post a Comment