پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ پی آئی ڈی کی طرف سے گزشتہ روز ایک ارڈر جاری کیا گیا ہے جس میں روزنامہ صحافت کے ایڈیٹر انچیف استاد محترم خوشنود علی خان اور روزنامہ غزنوی کے مدیر برادرم عقیل ترین کو مخاطب کر کے تمام اخباروں اور ان کی مارکیٹنگ ٹیموں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر آپ اشتہارات مانگنے سے باز نہ آئے تو اول آپ کا اخبار سنٹرل میڈیا لسٹ سے اتا دیا جائے گا اور دوم اگر آپ پھر بھی باز نہ تو آپ کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔ پی آئی ڈی کے اس حکم نامے کے تناظر میں مجھے استاد امام دین گجراتی یاد آئے جنہوں اس وقت ایسے ہی حالات سے تنگ آ کر پکوڑے بیچنا شروع کر دئیے تھے اور اس وقت کسی لوکل نمائندے نے استاد امام دین گجراتی سے یہ سوال کر دیا تھا کہ آپ نے پکوڑے بیچنا کیوں شروع کئے؟ امام دین گجراتی چونکہ فی البدیہہ شاعری میں کمال رکھتے تھے اس لئے انہوں نے جو اس وقت کہا وہ ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں البتہ استاد امام دین گجراتی سے تھوڑی معذرت کے ساتھ یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ اس طرح کہا جا سکتا ہے۔ “کوئی تن ویچے کوئی من وہچے امام دین پکوڑے نہ ویچے تے اپنا “فن ” ویچے ” یہ فن والا لفظ جسں جگہ پر لگایا گیا ہے ہر پڑھنے والا اصل لفظ ذہن میں بٹھا کر لطف اندوز ہونے کے تمام جملہ حقوق محفوظ رکھتا ہے۔ویسے بھی اخبار اور پکوڑوں کا تعلق بہت ہی گہرا ہے ۔تازہ اخبار میں کئی کرپٹ لوگوں کے پکوڑے تلے گئے ہوتے ہیں اور باسی اخبار میں تلے ہوئے پکوڑے رکھ کر فروخت کر دئیے جاتے ہیں ۔ بہرحال بات پی آئی ڈی کے حکمنامے کی ہو رہی تھی تو عرض کرنے کا مقصد ہے کہ استاد محترم خوشنود علی خان کے اخبار کا نام ہی صحافت ہے اس لئے وہ اپنے اخبار میں اکثر اوقات بدعنوان عناصر کے پکوڑے تلتے رہتے ہیں اور اس کے جواب میں پی آئی ڈی نے جو “لچ تلا ” ہے وہ شائد گرم گرم ذمہ داران کے ہاتھوں میں ہی رکھ دیا جائے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے تمام اخبارات معاشرے کے تمام افراد کے حقوق کے تحفظ کے لئے آواز بلند کرتے ہیں اور چند لوگ ہمارے ہی حقوق پامال کر دیں اور اوپر سے یہ آمرانہ آرڈر بھی جاری کر دیں تو پھر خاموشی جرم ہو گی! پی آئی ڈی والے اس حکمنامے کی بجائے ہر کمرے کے باہر کچھ جملے لکھ کر لگا دیتے تو زہادہ بہتر تھا ۔مثال کے طور پر سیکرٹری انفارمیشن اپنے کمرے کے باہر یہ جملہ لکھوادیں “اشتہار مانگ کر شرمندہ نہ ہوں ” اور پی آئی او صاحب یہ جملہ کمرے کے باہر لکھوادیں “کشمیر کی آزادی تک اشتہارات مانگنا منع ہے” اور ڈائریکٹر اشتہارات یہ عبارت لکھو دیں”خبردار اشتہار مانگنا جرم ہے “اور ڈی جی پی آئی ڈی یہ جملہ لکھوائیں ” اشتہار مانگ مگر پیار سے” نگران حکومت میں جب مرتضیٰ سولنگی صاحب کو وزیر اطلاعات بنایا گیا تو مجھ سمیت سینکڑوں اخبار نویس اس خوش فہمی کا شکار ہو گئے کہ ہمارے قبیلے کا بندہ ایسے کام ضرور کرے گا کہ جب وہ نگرانی چھوڑ کر واپس قبیلے میں آئے گا تو نیچے سے اوپر تک لوگ انہیں سر انکھوں پر بٹھائیں گے۔مگر افسوس انہیں غلط ٹریک پر چڑھا دیا گیا اور ان کے زیر سایہ کام کرنے والے لوگ ہمارے سر قلم کرنے اور آنکھیں نکالنے کے درپے ہیں ۔اخبارات کے حالات پہلے بہت خراب تھے اب مزید ہو جائیں گے ویسے بھی اب تمام اخبارات سے وابستہ لوگوں کو بھوک اور فاقوں سے دوستی ہوتی جا رہی ہے۔لیکن چھوٹے اخبارات کو دیوار سے لگا دیا جائے گا تو پھر اخبارات کے تمام صفحات پر ہمارے حقوق غصب کرنے والوں کے ” پکوڑے تلنا ” ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے اور ان پکوڑوں میں مرچیں کبھی کبھی زیادہ بھی ہونگی۔ چلتے چلتے پھر یاد کروا دوں امام دین پکوڑے نہ ویچے تے ہور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی آپ سب لوگ سمجھدار ہیں۔
0 کمنٹس:
Post a Comment