ہمارے جسم کی اندرونی گھڑی ہمیں دن بھر مستعد رکھتی ہے اور رات کو تھکاوٹ کا احساس دلاتی ہے۔مگر سفر، مختلف شفٹوں میں ملازمت (شام یا رات کی شفٹ)، نومولود بچے کی نگہداشت یا نیند کے شیڈول کو متاثر کرنے والی ہر چیز اندرونی گھڑی کے نظام کو متاثر کرتی ہے۔
جسمانی گھڑی متاثر ہونے سے مخصر المدت میں تھکاوٹ، بے خوابی یا بدہضمی جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے مگر طویل المعیاد بنیادوں پر سنگین امراض جیسے دل کی شریانوں کے امراض، ذیابیطس، ڈپریشن اور کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
مگر اب ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ صبح اچھا ناشتہ کرنا جسمانی گھڑی کو متاثر ہونے سے بچانے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ صبح اچھا ناشتہ اور رات کے کھانے سے گریز کرنا جسمانی گھڑی کو درست رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے لیے محققین نے ایک ریاضیاتی ماڈل تیار کیا جس سے ان کے لیے جسمانی گھڑی کے جسمانی خلیات اور ٹشوز سے رابطوں کو جانچنا ممکن ہوگیا۔محققین نے بتایا کہ ہم نے روشنی (دماغ) اور غذا (جگر) کے حوالے سے جسمانی گھڑی کے ردعمل کا جائزہ لیا۔
تحقیق کے لیے ایک شخص پر تجربہ کرتے ہوئے اسے نیویارک سے پیرس کا ورچوئل سفر کرایا گیا (دونوں شہروں کے وقت میں 6 گھنٹے کا فرق ہے)۔نتائج سے معلوم ہوا کہ ٹائم زون میں تبدیلی کے باعث طاری ہونے والی تھکاوٹ، سستی اور دیگر مسائل (اس مسئلے کے لیے جیٹ لیگ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے) کا دورانیہ کم کرنا ممکن ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ عموماً جیٹ لیگ پر قابو پانے میں کسی فرد کو 9 دن کا وقت لگتا ہے مگر ناشتے کی مقدار میں دوگنا اضافے اور رات کے کھانے سے گریز سے ایسا 5 دن میں ممکن ہو سکتا ہے۔
محققین کے مطابق صبح اچھا ناشتا کرنے سے جسمانی گھڑی کو درست رکھنے میں مدد مل سکتی ہے جبکہ جیٹ لیگ کے اثرات سے نمٹنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا تھا کہ ناشتے سے نہ صرف جسمانی گھڑی متحرک ہوتی ہے بلکہ اس سے جسمانی وزن کو کم کرنے اور بلڈ شوگر کی سطح بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ نئی تحقیق کے نتائج اس مشورے سے مطابقت رکھتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ سونے سے قبل بہت زیادہ کھانے سے گریز کرنا چاہیے۔محققین کی جانب سے اس حوالے سے اب مزید تحقیق کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ ناشتے کی کتنی مقدار زیادہ مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔اس تحقیق کے نتائج جرنل Chaos میں شائع ہوئے۔
0 کمنٹس:
Post a Comment