پنجاب کے نگراں وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا ہے کہ مبینہ طور پر صوبے بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی بینائی کو نقصان پہنچانے کا باعث بننے والی دوا آواسٹن کو منظوری لیے بغیر استعمال کیا گیا۔
لاہور، قصور اور جھنگ کے اضلاع میں ذیابیطس کے متعدد مریضوں کے ریٹینا کو پہنچنے والے نقصان کو دور کرنے کے لیے آواسٹن کے انجیکشن لگائے گئے لیکن الٹا اس سے شدید انفیکشن ہوا جس کے نتیجے متعدد کی بینائی ختم ہو گئی۔
ذیابیطس کے مریضوں میں جان لیوا بیماری اینڈو فیتھلمائٹس کا مسئلہ اس وقت منظرعام پر آیا جب ضلع قصور میں دوا کے ری ایکشن کے متعدد کیسز رپورٹ ہوئے۔
ابتدائی تحقیقات میں مبینہ طور پر آواسٹن دوا کی دوبارہ پیکیجنگ اور اس کی سپلائی کے ساتھ ساتھ کولڈ چین کے نظام میں بھی مسائل کا بھی پتا چلا جس کی وجہ سے پنجاب میں یہ بیماری پھیلی۔
سرکاری اعداد و شمار میں انکشاف کیا کہ اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد سے مبینہ طور پر مذکورہ دوا نے صوبے میں 68 مریضوں کی بینائی کو بری طرح متاثر کیا، یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ صوبے بھر میں مزید کیسز سامنے آرہے ہیں اور محکمہ صحت کے حکام سرکاری اعداد و شمار کا حصہ بنانے کے لیے ان کا جائزہ لے رہے ہیں۔
اس معاملے پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ یہ دوا عام طور پر کینسر کے مریضوں کے علاج میں استعمال ہوتی ہے اور آنکھوں کے مرض کے علاج کے لیے اس کے استعمال کی امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) ، بھارتی طبی حکام یا خود دوا بنانے والی کمپنی ’روش‘ نے منظوری نہیں دی۔
انہوں نے کہا کہ دوا کی منظوری لیے بغیر ’آف لیبل استعمال کیا گیا، اس دوا کے اس طرح کے استعمال سے قبل ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی اجازت لازمی درکار ہے، حالیہ معاملے میں ایسا کچھ نہیں کیا گیا اور مریضوں سے رضامندی بھی نہیں لی گئی۔
وزیر صحت نے کہا کہ ہم نے آج فیصلہ کیا ہے کہ جب بھی ہم اس دوا کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں تو ہم مریض کو اس بارے میں آگاہی فراہم کریں گے، ان کی مکمل حفاظت کی جائے گی، اس دوا سے پہنچنے والے ممکنہ نقصان کے بارے میں بتایا جائے گا اور صرف تحریری رضامندی کافی نہیں ہو گی بلکہ ہمیں ایک ریکارڈنگ درکار ہو گی جس میں مریض کو دوا فوائد اور ممکنہ خطرات کے حوالے سے وضاحت کی گئی ہو، اور پھر اگر مریض راضی ہو جائے تو اس دوا کو استعمال کیا جائے گا۔
جاوید اکرم نے کہا کہ مجرموں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اب تک 68 کیسز سامنے آئے ہیں جن میں اضافے کا خدشہ ہے جبکہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران اس دوا کا استعمال کرنے والے افراد اور اس کے نتائج کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جا رہا ہے۔
0 کمنٹس:
Post a Comment