پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ بنیادی طور اخباری صنعت سے جڑے ایک ایسے ادارے کا نام ہے جہاں نا صرف چھوٹے بڑے اخباری مالکان بلکہ تمام سینئر اور جونیئر صحافی اپنی آس امید کا دیا لئے گھومتے دکھائی دیتے ہیں ۔اسی پی آئی ڈی میں ایک اہم ترین عہدہ PIO کا بھی ہے ۔سابق پی آئی او اور ڈان لیکس کی زد میں بلاوجہ آنیوالے راؤ تحسین صاحب اس کو صحافیوں کا "پیو"قرار دیا کرتے تھے کیونکہ اس دربار سے کئی ضرورت مند اور بے روزگار صحافیوں کی رازداری سے مدد بھی ہوا کرتی تھی ۔
پھر یوں ہوا کہ ہماری عادتیں بھی خراب ہوتی گئیں اور نیت خیر سے پہلے خراب ہو چکی تھی ۔پی آئی ڈی کے معاملات میں پہلی خرابی اس وقت آ نا شروع ہوئی جب کئی "فنکار"لوگون نے اشتہارات کو دھندے کے طور پر اختیار کرنا شروع کیا ۔ان فنکاروں اور کلاکاروں کو اس بات کی نہ فکر تھی اور نہ ہی شرمساری کہ شعبہ صحافت میں گزارے کئی سالوں کی ہی لاج رکھ لیتے کیونکہ صحافی تو وہ کبھی تھے ہی نہیں اس لئے ان لوگوں پی آئی ڈی کو تیزی کے ساتھ ایک معتبر ادارے کی بجائے اشتہاراتی "آڑھت"میں تبدیل کر دیا۔ہماری گناہگاروں آنکھیں کئی سالوں سے تماشہ دیکھنے کی عادی ہو چکی ہیں کہ پورے پاکستان کے چھوٹے چھوٹے علاقوں سے نکلنے والے غیر معروف اخبارات بڑا بڑا بزنس سمیٹ رہے ہیں ۔اس مرض مسلسل کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بڑے عہدوں پر بیٹھے چھوٹے لوگ ان "آڑھتی"نما اخباری مالکان کے ساتھ فوری "ڈیل"بنانے میں آسانی محسوس کرتے ہیں کیونکہ دونوں فریقوں کو یقین ہوتا ہے کہ "معاہدہ "صیغہ راز میں رہے گا تو مفادات کا دو طرفہ تحفظ یقینی ہو گا۔
بات آڑھتی فنکاروں تک رک جاتی تو شائد اصلی اور نسلی صحافیوں کے اخبارات کی دال روٹی بھی چلتی رہتی لیکن اب فنکاروں کے بھی استاد اس دھندے میں بہروپئے بن کر بیٹھ گئے ہیں ۔پی ائی ڈی کے کئی ملازمین نے بالواسطہ اخبارات کے یاتو اپنے عزیز واقارب کے نام ڈیکلیریشن لے لئے اور یا پھر کوئی مجبور اپنا اخبار بیچنے اس منڈی میں آیا تو انہوں نے وہ اخبار اپنی اہلیہ یا یا کسی دوسرے عزیز کے نام پر خرید لیا اور پھر لاکھوں کی دیہاڑیاں شروع ہوگئیں ۔
استاد محترم خوشنود علی خان کی قیادت میں سی پی این ای اور اے پی این ایس اس ظلم کے خلاف مسلسل نبرد ازما تو ہے لیکن جیسے جیسے یہ جدوجہد تیز ہو رہی ہے اس سے کہیں زیادہ تیز سرکاری اور غیر سرکاری "فنکار"ترقی کر رہے ہیں ۔پی آئی ڈی کا چکرلگے تو آپ دیکھیں گے بے یارومددگار اخباروں کے کارکن اس ندی کنارے اس امید پر اپنی "کنڈیاں"ڈال کر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں اور انہیں رات نو دس بجے تک امید ہوتی کہ چھوٹے سائز کی کوئی نہ کوئی مچھلی شائد ان کی رسوئی تک رسائی حاصل کر لے ۔لیکن دوسری طرف سرکاری اور غیر سرکاری فنکار شام وشام بڑے سائز جالوں میں اپنی نئی نئی چالوں کے ساتھ چھوٹے بڑے سائز کی تمام مچھلیاں پکڑ کر اگلے دن کے لئے کسی فلیٹ میں رقص و سرود کی محفل سجائے بیٹھے ہوتے ہیں ۔
سی پی این ای اور اے پی این ایس کو اگر اصل صحافیوں اور اصل چھوٹے اخبارات کے مالکان کی بھلائی عزیز ہے توپھر سب سے پہلے ایف ائی اے یا نیب کے ذریعے اس بات کی تحقیقات کروائی جائیں کہ وہ کون سے پی آئی ی ڈی کے ملازمین ہیں جنہوں نے اپنے اخبارات کے ڈیکلریشن اپنے قریبی عزیزوں کے نام لے رکھے ہیں اور ان برے معاشی حالات میں بھی ان کا بزنس عروج پر ہے ۔اس کے علاوہ ان افسران اور ملازمین کی بھی پڑتال ضروری ہے جنہوں نے پی ائی ڈی کو باضابطہ طور پر "آڑھت" بنا دیا ہے ۔چھوٹے بڑے سائز کے تمام اشتہارات کو مچھلیوں کی طرح اپنے جال میں بھرنے والے ان تمام سرکاری اور غیر سرکاری "مچھیروں"کویہ احساس دلانا ضروری ہے کہ سمندر میں اٹھنے والے طوفانوں سے کئی مچھیرے لاپتہ ہو جاتے ہیں ۔
یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن پہلی فرصت میں پی آئی ڈی کے بااثر "مچھیرے"اور آڑھتی بے نقاب ہونا ضروری ہیں۔کیوںکہ مزاحمت جتنی دیر سے شروع ہوتی ہے اتنا ہی زیادہ نقصان ہوتاہے #
0 کمنٹس:
Post a Comment