728x90 AdSpace

  • تازہ ترین

    Thursday, October 12, 2023

    تاثرات//مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نےوہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہ تھے



    تحریر: کونسلر محمد الیاس راجہ ایڈووکیٹ

    انتہائی معزز و محترم قارعینِ اکرام حال ہی میں برطانیہ سے بارہ رکنی ایک ملٹی سکلز وفد جس کے ممبران میں کامیاب بزنس مین عوامی نماہندگان جسٹس آف پیس اعلی حکومتی تنظیموں اور برٹش اہیر ویز جیسی بڑی آرگناہزیشن میں بہتر مینجمنٹ کے تجربات اور سیلف ایمپلاہنڈ لوگوں کا ایک اعلی تربیتی وفد حسبِ سابق پاکستان اور آزاد کشمیر ٹور ازم پروموشن اور ملکی درپیش صورتِ حال کا جاہزہ لینے کی غرض سے برٹش ھاہی کمیشن ، منسٹر ٹورازم جناب وصی شاہ صاحب اور ان کے عملے ، آپوزیشن لیڈر آزاد کشمیر اسمبلی جناب خواجہ فاروق صاحب سے لیکر ملکی سیاسی اور غیر سیاسی تنظیموں سول سوساہٹی ممبران صحافتی تنظیموں بار آسوسی ایشنز ادبی اور سماجی حلقہ احباب متعدد ظہرانوں اور عشاہیوں میں حاضری کے ساتھ ساتھ عام آدمی اور ملکی مفلوکالحال طبقہ کے لوگوں سے ملنے اور ان کے حالات جاننے کے بعد جو ملا جلا خوشگوار اور دلسوز قسم کا تاثر تھا اسے آپ کے ساتھ شہیر کرنا اس لیے مقصود ہے کہ شاہید کہ کسی دل میں اتر جاہے میری بات اور اصلاحِ احوال کی کوہی بہتر صورت پیدا ہو سکے ۔ آغازِ مدعا سے پہلے بارگاہِ رب العزت میں بے انتہا شکر گزار ہیں جس نے وطنِ عزیز کو اپنی بے پایاں نعمتوں اور ایسے ایسے حسین قدرتی مناظر سے نواز رکھا ہے جن کا دنیا بھر میں کوہی نعم البدل ہے ہی نہیں کاش کہ ان قدرتی حسین مناظر کو ان کی آن وشان کے مطابق سنبھالا بھی گیا ہوتا اور اس ٹور ازم پوٹینشل سے بھر پور استفادہ کیے جانے کے کوہی خاطر خواہ اقدامات بھی کیے ہوتے اس طویل سبجیکٹ اور ملکی درپیش صورتحال پہ بات کرنے سے پہلے میں اپنے تمام کرم فرماوں جن میں بالخصوص جناب ظفیر بابا صاحب صدر آزاد جموں و کشمیر سنٹرل یونین آف جرنلسٹس ، میرے بچپنے کے عزیز دوست اور سکول فیلو چوہدری امتیاز عالم صاحب ، صدر ڈسٹرکٹ بار آسوسی ایشن میرپور چوہدری کامران طارق صاحب ایڈووکیٹ اور دیگر عہدیداران , صدر سہنسہ بار آسوسی ایشن نوجوان ایڈووکیٹ راجہ محمد اکرم صاحب ، راجہ امداد خان ایڈووکیٹ و دیگر معزز ممبران بار ، صدر سنٹرل بار آسوسی ایشن مظفر آباد راجہ آفتاب صاحب ، راجہ ابرار صاحب ، شیخ منظور قادر صاحب و دیگر نوجوان وکلاء ، جناب روشن مغل صاحب ، جناب وحید کیانی صاحب ، بٹ صاحب و دگر ممبران پریس کلب مظفر آباد ، اعجاز میر صاحب صدر پریس کلب ہٹیاں بالا و رفقاہے کار ، جناب لیاقت علی پسوال صاحب ، شاھد صاحب، ابھرتی ہوہی بے باک شاعرہ عنبریں عنبر جن کی شاعرانہ سوچیں کہ ” شام پھر سے مہکے گی ” اور تقریب میں موجود دیگر علمی و ادبی شخصیات ، نعیم چوہاں صاحب و ارتھ کنکشن کی باصلاحیت ٹیم اور مرکز ٹی وی یو ایس اے کے محترم سیف الله سیف صاحب اور ان کے عملے ، انعام الحق کیانی صاحب ، راجہ اورنگزیب صاحب ، عامر ریاض منگرال ، جناب سرفراز صاحب ، راجہ افراسیاب صاحب سابق چیرمین یونین کونسل لدڑ ڈسٹرکٹ جہلم ، راجہ نثار صاحب ایڈووکیٹ سوہاوہ ، پروفیسر ظہیر صاحب صدر اولڈ سروشیین گورنمنٹ کالج میرپور آزاد کشمیر ، پرنسیپل گورنمنٹ کالج میر پور و دیگر سٹاف ممبران ، جناب سید نشاط شاہ صاحب ایڈووکیٹ سابق صدر آزادکشمیر سپریم کورٹ بار آسوسی ایشن ، سیماب احمد خان ، عمر شہزاد ، ناصر محمود ، عزیزم اعزاز ، ارسلان اکبر ٹیم ٩٣ ، محمد اجمل سلطانی ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر زبیر احمد قاضی صاحب و عزیزم ڈاکٹر علی شان کے علاوہ اپنے آساتذہ اکرام جناب پروفیسر حنیف خواجہ صاحب ، جناب محترم پروفیسر عبدالحمید نقشبندی صاحب ، جناب پروفیسر راجہ آزاد صاحب اور سابق جسٹس سپریم کورٹ آزادکشمیر جناب چوہدری محمد تاج صاحب جو پیرانہ سالی اور علالت طبح کے باوجود بذلہ سنجی میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں کے وقت اور حسبِ رواہت میزبانہ تکلفات کے لیے بے حد ممنونِ احسان ہوں ان ستاہیس دنوں کے انتہاہی مصروف ترین اور تھکا دینے والے میرپور ، کوٹلی ، سہنسہ ، بھمبر کے بیشتر دہیات اور قلعہ روہتاس جیسے تاریخی مقامات سے شروع کردہ اسلام آباد سے مالم جبہ ، کالام ، لوہر دیر ، کمراٹ واٹر فال ، کالا چشمہ ، مظفر آباد ، کیرن ، شاردہ اور مری جیسے قدرتی نعمتوں سے مالا مال دنیا بھر کے سیاحوں کی دلچسپی کے جو دیدہ زیب مناظر ہیں وہ اس وطنِ عزیز کو ربِ کریم و رحیم کا ایک ایسا نادر تحفہ ہیں جس کی مثال دنیا میں خال خال ہی ملتی ہے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ مہذب دنیا میں اگر چالیس فیصد کہیں بھی قدرتی حسن ہے تو ساٹھ فیصد عوامِ علاقہ اور حکومتِ وقت کی کنٹربیوشن کو دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کے رویے کتنے خوش آمدیدانہ ہیں ، نفاست کا کسقدر اعلی معیار ہے لوگوں کی راہنماہی کے لیے چھوٹے چھوٹے لیف لیٹس اور کتابچے انفارمیشن سنٹرز سے دستیاب ہونے کے علاوہ رضاکارانہ گاہیڈز موجود ہیں جو ہر طرح کی معلومات بخوشی فراہم کرتے ہیں کاروبار زندگی ایک اصول اور ضابطے کا پابند ہے جاہز پرافٹ ہر بزنس مین کما رہا ہوتا ہے مگر بے تحاشا لوٹ مار کی کسی کو آجازت نہیں مہذب دنیا کے ملکوں کے نظامِ عدل کا یہ عالم ہے کہ خوبرو نوجوان دوشیزاہیں رات کے دوسرے اور تیسرے پہر بھی اپنی مرضی سے روگرداں ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ ان کی طرف میلی نظر اٹھا کر دیکھ سکے یا کوہی بیہودہ آوازہ ہی کس سکے وزراہے اعظم اور بادشاہِ وقت تک تن تنہا بلا خوف و خطر گھوم پھر رہے ہیں حقوقِ انسانی کو ہر طور پر مقدم و محترم سمجھا جاتا ہے پروٹوکول نام کی کوہی چیز ہی نہیں بڑے سے بڑے لوگ عجز و انکساری کو اپنا طرہِ امتیاز سجھتے ہیں مگر افسوس اور صد افسوس کہ ملکِ عزیز جسے لا الہ الا اللہ کے نام پہ حاصل کیا گیا وہاں یہ ساری خوبیاں سرے سے مفقود نظر آتی ہیں تفریحی گاہوں اور سیاحتی مقامامات پہ پہلے تو واش روم ہے ہی نہیں اور اگر کہیں ہیں تو وہ قابل استعمال ہی نہیں ہیں جا بجا کوڑا کرکٹ اور کچرے کے ڈھیر لگے ہوے ہیں اور یہ صورت حال نہ صرف سیاحتی مقامات پہ بلکہ رہاشی بستیوں میں بھی اکثر و بیشتر دیکھی جا سکتی ہے اور کوہی پرسانِ حال نہیں ہے جو اچھے لوگ اصلاحِ احوال کی سوچ رکھتے ہیں وہ بھی خوف کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں جمہوری طرز حکومت کے چرچے کرنے والے ملک کی حالت ایک پولیس اسٹیٹ سے بد تر دیکھی جاسکتی ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھتر سے اسی فیصد باشعور لوگوں کا بلکہ کھچ ساتھیوں کے غیر جانبدارانہ تجزیے کے مطابق پچاسی سے 90 % لوگ تحریکِ انصاف کو ملک کی مقبول ترین جماعت قرار دیتے ہیں اور اس خدشے کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ مٹھی بھر چند کرپٹ جرنیل اسلامی نظام عدل کو دنیا کہ کرپٹ ترین ممالک میں شامل کروانے والے ججزز لوٹ مار اور منی لانڈرنگ کے ماہرین بے ضمیر سیاستدان اور اعلی بیوروکریٹس جنہوں نے اپنے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملک کو تباہی کے دھانے تک پہنچا رکھا ہے وہ ہر صورت سٹیٹس کو بحال رکھے جانے پہ بضد ہیں اور ایسی صورت حال میں غیر جانبدارانہ اور منصفیانہ انتخابات کی امید نہیں رکھتے علاوہ ازیں جن انتہاہی دکھ آمیز باتوں کا احساس ہوا ہے وہ یہ کہ اکثریتی قومی مزاج میں جھوٹھ خوشامد اور منافقت کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے ایسے حکومتی آداروں جنکا کام نیک نیتی اور جواں مردی سے دفاعِ ملک و ملت عدل و انصاف اور تعمیرِ وطن ہونا چاہیے کا سیاست میں ملوث اور غلط بیانی پہ مبنی پرپیگنڈہ کے فروغ میں معاونت بڑی حد تک افسوس ناک اور نقصان دہ ہے کام چوری کا رحجان دن بدن بڑھ رہا ہے اور رزقِ ممنوحہ کو کوہی عیب نہیں سمجھا جاتا فوج کی عزت و وقار نام کی چیزوں کو اب قصہِ پارینہ سمجھا جاتا ہے اور عام اظہار اس طرح کا ملتا تھا کہ ہر دور کے چند کرپٹ جرنیلوں نے ڈیسیپنل کے نام پہ انتہاہی محبِِ قوم و ملک فوج کو یرغمال بنا کر اپنے وقتی اقتدار اور مالی مفادات کے ساتھ ساتھ استعماری قوتوں کے ناپاک اور مغموم مقاصد کے حصول کے لیے حقیقی جمہوری راہے کے پروان چڑھنے میں ہر ممکنہ رکاوٹیں قاہم کیں جس کا تسلسل تا حال جاری و ساری ہے اور یہ سوچ قوم و ملک کے لیے انتہاہی نقصان دہ ہے اور اسکا اگر بروقت سدِ باب نہ کیا گیا تو پھر ملک کو انتہاہی گمبیرگرداب سے بچانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا چلا جاہے گا ۔ ہم نے پوری نیک نیتی سے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ میرٹ سسٹم کو نظر انداز کر کے رشوت سفارش اقرباء پروری کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جس سے با ضمیر علم و بصیرت کے حامل لوگوں کا دلبرداشتہ ہو کر غیر ممالک میں قیام اور سرمایہ کاری کا رحجان بڑھ رہا ہے میں ذاتی طور پر ایسے کہی انوسٹر کو جانتا ہوں جنہوں نے پاکستان میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کے بعد اپنے کاروبار مکمل طور پر بند کر دیے ہیں اور یہ رحجان آہندہ کے سرمایہ کاروں کے لیے بھی بڑی حد تک پریشان کن ہے ۔ آجکل ڈیری فارمنگ انڈسٹری اس کی زندہ مثال ہے اس ساری تشویشناک صورت حال کا پہلا اور بنیادی حل تو غیر جانبدارانہ اور منصفیانہ انتخابات کا تسلسل سے ہوتے رہنا ہے تاکہ حقیقی عوامی نماہندے عوامی امنگوں کے مطابق 97 % عوام کے لیے کام کر سکیں نہ کہ اسلام دشمن غیر ملکی آقاوں کے پروردہ تین فیصد لوگوں کی مراعات پر ہی ملکی وساہل ضاہح کیے جاہیں ۔ اس سلسلے میں میں نے اور میرے دیگر گروپ ممبران نے مختلف پریس کلب میٹنگز ، بار آسوسی ایشن میٹنگز اور دیگر عشاہیے ظہرانوں اور مختلف اجتماعات میں ترقی پذیر ممالک کی طرز پرNo to Protocol Campaignشروع کیے جانے کا عندیہ دیتے رہے مگر اللہ ہی جانے کہ کونسے باجرات اشخاص اور طبقہ اس اہم فلاحی کارِ خیر میں سبقت لیتا ہے ۔ معزز و محترم قارعینِ اکرام مجھے اپنے ادیب ، دانشور ، راہٹر یا قلمکار ہونے کا کوہی دعوہ نہیں ہے تاہم اپنے حالیہ مختصر دورے کے دوران جو کھچ دیکھا سنا یا محصوص کیا ان چیدہ چیدہ نکات کو اس غرض سے قلمبند کر رہا ہوں کہ ممکن ہے کوہی نکتہ مادرِ وطن کو درپیش مخدوش کن صورتِ حال کی اصلاح میں معاون ثابت ہو سکے ۔ اور جن مثبت طرز عمل مہذب دنیا کی روز مرہ زندگی میں دیکھا اور محصوص کیا جا سکتا ہے اس کا وطنِ عزیز میں بھی احیا ہو پاہے ۔ اپنی تعمیری راہے سے ضرور مطلع فرماتے رہیے گا ۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔آمین ثمہ آمین


    • Blogger Comments
    • Facebook Comments

    0 کمنٹس:

    Post a Comment

    Item Reviewed: تاثرات//مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نےوہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہ تھے Rating: 5 Reviewed By: sportstimesisb
    Scroll to Top