پاکستان نے جمعرات کو واضح کیا کہ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ خاص طور پر افغان مہاجرین کو نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ ان تمام تارکین وطن کے خلاف تھا جو غیر قانونی طور پر ملک میں بغیر ویزا دستاویزات کے مقیم ہیں۔
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ ملک میں افغان مہاجرین کے حوالے سے قومی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور ان کی محفوظ واپسی ایک الگ مسئلہ ہے۔
ترجمان نے کہا کہ جاری آپریشن ان افراد کے خلاف ہے جنہوں نے یا تو اپنے ویزے سے زائد قیام کیا تھا یا ان کے پاس قیام کے لیے درست دستاویزات نہیں تھیں۔
بلوچ نے واضح کیا کہ اس آپریشن کا ان افغان مہاجرین سے کوئی تعلق نہیں تھا جن کی پاکستان معاشی مجبوریوں کے باوجود کئی دہائیوں سے میزبانی کر رہا ہے۔
انہوں نے تصدیق کی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت جاری ہے تاہم اس بات پر زور دیا کہ پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولیات کے غلط استعمال کو قبول نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان واضح طور پر افغانستان سے لاحق خطرات کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سفارت کاری پر یقین رکھتے ہیں اور افغان حکام کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ افغان سرزمین دہشت گردی کو ہوا دینے کے لیے استعمال نہ ہو۔
بلوچ نے کہا کہ پاکستان ہندوستانی حکام سے رابطے میں ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستانی تماشائیوں اور صحافیوں کو ویزا جاری کریں جو ہندوستان میں آئی سی سی (انٹرنیشنل کرکٹ کونسل) ورلڈ کپ دیکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ میزبان ملک کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو سیکیورٹی اور سازگار ماحول فراہم کرے اور اس بات پر زور دیا کہ کھیلوں کو سیاست سے نہیں ملایا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی ٹیم دو طرفہ کرکٹ سیریز کے لیے نہیں بھارت کا دورہ کر رہی ہے اور اس لیے اسے بین الاقوامی سیریز میں شرکت کا پورا حق حاصل ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ وزارت خارجہ کو الیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ عام انتخابات کے لیے بین الاقوامی مبصرین کو مدعو کرنے کا باضابطہ پیغام موصول ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس عمل کو پالیسی اور ماضی کے طرز عمل کے مطابق آسان بنایا جائے گا۔
فلسطین کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پالیسی واضح ہے کہ وہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے۔
0 کمنٹس:
Post a Comment