تحریر: عباس ملک
پاکستان شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار طلعت حسین طویل علالت کے بعد 83 برس کی عمر میں گزشتہ روز انتقال کرگئے لیکن وہ اپنی بے مثال اداکاری کی وجہ سے مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔طلعت حسین نے اپنے پانچ دہائیوں پر محیط شاندار کریئر کے دوران فلموں، ڈراموں اور تھیٹر میں بہت سارے مختلف کردار ادا کیے۔اُنہوں نے اداکاری میں صداقت اور جذبات لانے کی اپنی شاندار صلاحیت کی وجہ سے مداحوں اور ناقدین کے دلوں میں یکساں مقام حاصل کیا۔پاکستانی شوبز کے موجودہ منظرنامے پر ایسے فنکاروں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے جن کی آنکھیں قیام پاکستان کی گواہ تھیں اور جنہوں نے ایک نئے ملک کو معرض وجود میں آتے دیکھا۔ وہ ریڈیو پاکستان کی شاندار تہذیب اور پاکستان ٹیلی وژن کے سنہری ادوار سے واقف تھے جن کے ہاں شوبز صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ تربیت کا بڑا حوالہ تھی۔ وہ جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے ملک کا نام روشن کیا۔ انہیں شخصیات میں سے ایک طلعت حسین تھے، اب جو اب دنیا سے رخصت ہوچکے۔ہم جب طلعت حسین کے باب زیست کے اوراق پلٹتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بڑے فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے آدمی بھی تھے۔ انہوں نے غیرمنقسم ہندوستان میں آنکھ کھولی پھر تقسیم اور ہجرت کے پُر آشوب ادوار سے گزرے۔ اپنے وطن سے ٹوٹ کر محبت کی۔ مغربی دنیا سے اپنے پیشے کا علم حاصل کیا پھر ریڈیو کے مائیکروفون سے لے کر چھوٹی اور بڑی اسکرین پر اس فن کا شاندار مظاہرہ کیا۔ کئی نسلوں کی آبیاری کی اور زندگی کی آخری سانسوں تک اپنے اندر کے انسان کے تعاقب میں مصروف عمل رہے۔وہ پروفیسر بننا چاہتے تھے مگر زندگی انہیں فن اداکاری کی طرف لے گئی۔ پڑھنے لکھنے کے شوق سے انہوں نے اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنایا اور پھر تدریس کے شعبے سے جڑ کر اپنے خواب کو تعبیر دی۔ وہ ایک باعلم شخصیت تھے جس نے زندگی کی نہج تک پہنچ کر اپنے اندر کے پروفیسر کو دریافت کرلیا تھا۔ وہ ایک ایسے دانشور تھے جو اپنے ملک کو حقیقی معنوں میں روشن خیال اور تہذیب سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے۔ان کی زندگی کے اوراق میں سے چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں تاکہ آپ اس عظیم فنکار کی زندگی کے نشیب و فراز سے واقف ہوسکیں جنہوں نے اپنے فن کے ذریعے پاکستان کا نام روشن کیا۔ان کا مکمل نام طلعت حسین وارثی تھا۔ والد کا نام الطاف حسین وارثی جبکہ والدہ حیات النسا بیگم المعروف شائستہ بیگم تھیں۔ آپ نے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا صاحب دیوان شاعر بھی تھے۔ آپ کی تاریخ پیدائش 18 ستمبر 1940ء جبکہ جائے پیدائش پٹیالا تھی جہاں ان کے والد سرکاری ملازمت کے سلسلے میں رہائش پذیر تھے۔ آپ تین بھائی تھے جن میں سب سے بڑے آپ تھے۔آپ کا ددھیال لاہور میں جبکہ ننھیال میسور میں تھا۔ دہلی کی یادیں ان کے ابتدائی زمانہ طالب علمی کی عکاسی کرتی ہیں جہاں والد اپنی سرکاری ملازمت کے سلسلے میں رہائش پذیر تھے۔ان کو اپنے خانوادے سے تہذیب، شرافت کے ساتھ ساتھ شعر و ادب اور صداکاری ورثے میں ملی۔ آپ والدین کے ہمراہ کم عمری میں ہی فلمیں دیکھنے سینما جاتے تھے۔ آپ کے والد نے کچھ عرصہ بطور فلم ساز بھی کام کیا جبکہ والدہ آل انڈیا ریڈیو سے منسلک رہیں جہاں وہ زیڈ اے بخاری جیسی نابغہ روزگار شخصیات کی رفیق کار تھیں۔طلعت حسین والدین کے ہمراہ ہندوستان کی تقسیم اور قیام پاکستان کے شاہد بنے۔ ہجرت اور خونریزی جس کا ذکر سعادت حسن منٹو کی کہانیاں کرتی ہیں، وہ سب انہوں نے اپنے سامنے ہوتے ہوئے دیکھا۔ پٹیالا سے دہلی اور پھر دہلی سے براستہ بمبئی، کراچی تک کے سفر میں خون میں لت پت کئی مناظر دیکھے جس کا ہم تصور نہیں کرسکتے۔ ان کے ننھے ذہن پر گہرا اثر پڑا اور اس کے نتیجے میں وہ ایک محب وطن پاکستانی بنے جنہوں نے وطن سے ٹوٹ کر محبت کی اور اپنے فن کے ذریعے ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کیا۔طلعت حسین کی پاکستانی شوبز انڈسٹری کے لیے نمایاں خدمات کے اعزاز میں ہم یہاں ایک نظر ان کے کیریئر کی پانچ بہترین پرفارمنسز پر ڈالتے ہیں۔یہ پانچ ناقابل فراموش پرفارمنس نہ صرف بطور اداکار ان کی مہارت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ پاکستانی ثقافت پر بھی گہرا اثر رکھتی ہیں۔ ڈرامہ سیریل پرچھایاں کی کہانی ہنری جیمز کے ناول ’دی پورٹریٹ آف اے لیڈی‘ سے اخذ کی گئی تھی جسے حسینہ معین نے تحریر کیا تھا۔یہ پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کی جانب سے پیش کیا گیا پہلا رنگین ڈرامہ تھا۔طلعت حسین نے اس ڈرامے میں شیراز نامی لالچی آدمی کا کردار ادا کیا تھا، اس ڈرامے کو اس دور میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔
دوسرا ڈرامہ بندش (1980ء) میں ٹیلی کاسٹ ہوا۔طلعت حسین نے اس ڈرامے میں شہزاد نامی ایک وکیل کا کردار ادا کیا تھا، اس ڈرامے کی کہانی حسینہ معین نے تحریر کی تھی اور اسے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر نشر کیا گیا تھا۔شائقین کی جانب سے اس ڈرامے کو بہت پسند کیا گیا تھا اور اسے پی ٹی وی نے کئی بار دوبارہ بھی نشر کیا۔ ڈرامہ سریل آنسو (2000ء) میں پی ٹی وی پر نشر ہونے والا یہ پہلا پاکستانی ڈرامہ سیریل تھا جسے مکمل طور پر ڈیجیٹل کیمرے پر فلمایا گیا تھا۔ اس ڈرامے میں طلعت حسین نے ڈاکٹر احسن نامی کردار ادا کیا تھا جسے بہت مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔یہی ڈرامہ سیریل’آنسو‘ کا اوریجنل ساؤنڈ ٹریک’تنہا تنہا‘ جسے گلوکار علی عظمت کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا آج بھی بہت مقبول ہے۔
اس کے بعد دی ٹائپسٹ ڈرامہ آتا ہے۔طلعت حسین کے اس ڈرامے کی کہانی کو مشہور امریکی مصنف مرے شِسگل کی کتاب’دی ٹائپسٹ اینڈ دی ٹائیگر‘ سے ماخوز ہے۔طلعت حسین نے اپنی شاندار اداکاری اس ڈرامے کو ہمیشہ کے لیے یادگار بنا دیا۔ (2005ء) میں نشر ہونے والی فیچر فلم ’امپورٹ ایکسپورٹ‘ میں طلعت حسین شاندار انداز میں ایک قدامت پسند پاکستانی باپ کا کردار ادا کیا۔جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو دل رورہا ہے اس ملک کا عظیم انسان تھا طلعت حسین ۔کن الفاظ سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ معروف اداکار، صداکار و ہدایت کار طلعت حسین طویل علالت کے بعد گزشتہ دنوں انتقال کرگئے، ان کی تدفین کراچی کے مقامی قبرستان میں کردی گئی۔طلعت حسین کے سوگواروں میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ اس لا جواب ارٹسٹ طلعت حسین کو شہرت سنہ 1970 کے دور سے ملنا شروع ہوئی۔ طلعت حسین نے چند فلموں میں بھی کام کیا جبکہ سٹیج تھیٹرز پر بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ طلعت حسین کے مقبول ڈراموں میں پرچھائیاں، ہوائیں، کشکول، طارق بن زیاد اور دیگر شامل ہیں۔ سینئر اداکار کو 2021 میں ستارہ امتیاز (اسٹار آف ایکسیلنس) اور 1982 میں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا۔جب پاکستان میں ریڈیو اور ٹی وی کی شروعات ہوئی تو طلعت حسین ان چند اداکاروں اور صداکاروں میں سے ایک تھے جن کو ’پولشڈ آواز‘ کہا جاتا تھا۔ انھیں ڈائیلاگ ڈیلیوری پر عبور حاصل تھا۔طلعت حسین اداکاری پر ہی نہیں ادب، فلسفے، مذہب، تصوف، مصوری اور سیاست سمیت ہر موضوع پر گھنٹوں گفتگو کر سکتے تھے اور ہر وقت ان شعبوں کی قدیم و جدید کتابوں کی تلاش میں رہتے تھے۔ وہ ایک پڑھے لکھے اداکار تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے نہ صرف ڈرامہ کیا بلکہ پی ٹی وی کے آغاز میں انھوں نے کمپیئرنگ بھی کی۔طلعت حسین نے انگلینڈ سے واپس آنے کے بعد بہت کام کیا۔ ان کی ڈائیلاگ ڈیلوری، سٹریس اور پاز اور باڈی لینگوئج نے ان کی اداکاری خصوصاً رومانوی اداکاری کو ناظرین کے دلوں کو چھو لیا۔ وہ ایک مقبول ہیرو کے طور پر ابھرے اور انھیں پاکستان ٹیلی ویژن کا ’دلیپ کمار‘ کہا جانے لگا۔تقسیم سے قبل کے ہندوستان میں اداکار دلیپ کمار نے اداکاری کے لیے باڈی لینگوئج کا استعمال شروع کیا تھا، کیونکہ وہ فلم کے آدمی تھے اس لیے وہ سین میں چل کر ، رک کر اور بیچ بیچ میں ڈائیلاگ ادا کرتے تھے مگر یہ ان کا انداز تھا۔ طلعت حسین نے جو اندازِ اداکاری اپنایا وہ ان سے متاثر تو ہو سکتا ہے لیکن وہ جدا تھا، ان کے اپنے پازز اور سٹریس تھے۔وہ نہ صرف ایک بڑے اداکار ہیں بلکہ بہت اچھے انسان بھی ۔ طلعت حسین ایک سادہ لوح، اپنے کام کے ساتھ انتہائی مخلص اور اچھا انسان تھا۔ پاکستان میں ٹیلی وژن اور ریڈیو کی تاریخ لکھی گئی تو اس میں طلعت کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ بلاشبہ طلعت حسین پاکستان کے چوٹی کے اداکار تھے۔ وہ نہ صرف اچھے اداکار بلکہ ایک نفیس استاد بھی تھے۔ وہ گذشتہ 24 سال سے آرٹس کونسل آف پاکستان کی نہ صرف گورننگ باڈی کے رکن تھے بلکہ آرٹس کونسل کے مختلف شعبوں کے سربراہ بھی تھے۔ طلعت حسین کو لوگ پسند تھے۔ وہ سب سے کھلے دل سے ملتے۔ تاہم بے تکلفی کے باوجود انھوں نے کبھی کسی بھی قسم کی حد عبور نہیں کی۔ طلعت حسین اپنے سماج، ادب، تہذیب کے ساتھ جڑے اور عاجز انسان تھے۔انھوں نے اپنے جونیئر آرٹسٹوں کی ہمیشہ مدد کی، انھیں کردار کو نبھانے میں معاونت کی۔ وہ انتہائی شفقت لے ساتھ اپنے سے چھوٹوں سے پیش آتے۔ طلعت آج خاموش ہو گیا لیکن اس کے کام کی بازگشت ہمیشہ گونجتی رہے گی۔
دوسرا ڈرامہ بندش (1980ء) میں ٹیلی کاسٹ ہوا۔طلعت حسین نے اس ڈرامے میں شہزاد نامی ایک وکیل کا کردار ادا کیا تھا، اس ڈرامے کی کہانی حسینہ معین نے تحریر کی تھی اور اسے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر نشر کیا گیا تھا۔شائقین کی جانب سے اس ڈرامے کو بہت پسند کیا گیا تھا اور اسے پی ٹی وی نے کئی بار دوبارہ بھی نشر کیا۔ ڈرامہ سریل آنسو (2000ء) میں پی ٹی وی پر نشر ہونے والا یہ پہلا پاکستانی ڈرامہ سیریل تھا جسے مکمل طور پر ڈیجیٹل کیمرے پر فلمایا گیا تھا۔ اس ڈرامے میں طلعت حسین نے ڈاکٹر احسن نامی کردار ادا کیا تھا جسے بہت مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔یہی ڈرامہ سیریل’آنسو‘ کا اوریجنل ساؤنڈ ٹریک’تنہا تنہا‘ جسے گلوکار علی عظمت کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا آج بھی بہت مقبول ہے۔
اس کے بعد دی ٹائپسٹ ڈرامہ آتا ہے۔طلعت حسین کے اس ڈرامے کی کہانی کو مشہور امریکی مصنف مرے شِسگل کی کتاب’دی ٹائپسٹ اینڈ دی ٹائیگر‘ سے ماخوز ہے۔طلعت حسین نے اپنی شاندار اداکاری اس ڈرامے کو ہمیشہ کے لیے یادگار بنا دیا۔ (2005ء) میں نشر ہونے والی فیچر فلم ’امپورٹ ایکسپورٹ‘ میں طلعت حسین شاندار انداز میں ایک قدامت پسند پاکستانی باپ کا کردار ادا کیا۔جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو دل رورہا ہے اس ملک کا عظیم انسان تھا طلعت حسین ۔کن الفاظ سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ معروف اداکار، صداکار و ہدایت کار طلعت حسین طویل علالت کے بعد گزشتہ دنوں انتقال کرگئے، ان کی تدفین کراچی کے مقامی قبرستان میں کردی گئی۔طلعت حسین کے سوگواروں میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ اس لا جواب ارٹسٹ طلعت حسین کو شہرت سنہ 1970 کے دور سے ملنا شروع ہوئی۔ طلعت حسین نے چند فلموں میں بھی کام کیا جبکہ سٹیج تھیٹرز پر بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ طلعت حسین کے مقبول ڈراموں میں پرچھائیاں، ہوائیں، کشکول، طارق بن زیاد اور دیگر شامل ہیں۔ سینئر اداکار کو 2021 میں ستارہ امتیاز (اسٹار آف ایکسیلنس) اور 1982 میں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا۔جب پاکستان میں ریڈیو اور ٹی وی کی شروعات ہوئی تو طلعت حسین ان چند اداکاروں اور صداکاروں میں سے ایک تھے جن کو ’پولشڈ آواز‘ کہا جاتا تھا۔ انھیں ڈائیلاگ ڈیلیوری پر عبور حاصل تھا۔طلعت حسین اداکاری پر ہی نہیں ادب، فلسفے، مذہب، تصوف، مصوری اور سیاست سمیت ہر موضوع پر گھنٹوں گفتگو کر سکتے تھے اور ہر وقت ان شعبوں کی قدیم و جدید کتابوں کی تلاش میں رہتے تھے۔ وہ ایک پڑھے لکھے اداکار تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے نہ صرف ڈرامہ کیا بلکہ پی ٹی وی کے آغاز میں انھوں نے کمپیئرنگ بھی کی۔طلعت حسین نے انگلینڈ سے واپس آنے کے بعد بہت کام کیا۔ ان کی ڈائیلاگ ڈیلوری، سٹریس اور پاز اور باڈی لینگوئج نے ان کی اداکاری خصوصاً رومانوی اداکاری کو ناظرین کے دلوں کو چھو لیا۔ وہ ایک مقبول ہیرو کے طور پر ابھرے اور انھیں پاکستان ٹیلی ویژن کا ’دلیپ کمار‘ کہا جانے لگا۔تقسیم سے قبل کے ہندوستان میں اداکار دلیپ کمار نے اداکاری کے لیے باڈی لینگوئج کا استعمال شروع کیا تھا، کیونکہ وہ فلم کے آدمی تھے اس لیے وہ سین میں چل کر ، رک کر اور بیچ بیچ میں ڈائیلاگ ادا کرتے تھے مگر یہ ان کا انداز تھا۔ طلعت حسین نے جو اندازِ اداکاری اپنایا وہ ان سے متاثر تو ہو سکتا ہے لیکن وہ جدا تھا، ان کے اپنے پازز اور سٹریس تھے۔وہ نہ صرف ایک بڑے اداکار ہیں بلکہ بہت اچھے انسان بھی ۔ طلعت حسین ایک سادہ لوح، اپنے کام کے ساتھ انتہائی مخلص اور اچھا انسان تھا۔ پاکستان میں ٹیلی وژن اور ریڈیو کی تاریخ لکھی گئی تو اس میں طلعت کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ بلاشبہ طلعت حسین پاکستان کے چوٹی کے اداکار تھے۔ وہ نہ صرف اچھے اداکار بلکہ ایک نفیس استاد بھی تھے۔ وہ گذشتہ 24 سال سے آرٹس کونسل آف پاکستان کی نہ صرف گورننگ باڈی کے رکن تھے بلکہ آرٹس کونسل کے مختلف شعبوں کے سربراہ بھی تھے۔ طلعت حسین کو لوگ پسند تھے۔ وہ سب سے کھلے دل سے ملتے۔ تاہم بے تکلفی کے باوجود انھوں نے کبھی کسی بھی قسم کی حد عبور نہیں کی۔ طلعت حسین اپنے سماج، ادب، تہذیب کے ساتھ جڑے اور عاجز انسان تھے۔انھوں نے اپنے جونیئر آرٹسٹوں کی ہمیشہ مدد کی، انھیں کردار کو نبھانے میں معاونت کی۔ وہ انتہائی شفقت لے ساتھ اپنے سے چھوٹوں سے پیش آتے۔ طلعت آج خاموش ہو گیا لیکن اس کے کام کی بازگشت ہمیشہ گونجتی رہے گی۔
0 کمنٹس:
Post a Comment