نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا ہے حکومتی ملکیتی اداروں (ایس او ایز ) کے حوالے سے پالیسی ڈیزائن تیار کرلی گئی ہے، اداروں کی شفاف انداز میں نجکاری کی جائے گی۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کی زیر ملکیت چلنے والے کچھ اداروں کی کارکردگی بہت اچھی رہی، انہوں نے ملک کی معاشی ترقی میں کردار ادا کیا اور عوام کو بہترین خدمات فراہم کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی ملکیتی کمپنیاں انرجی، ٹیلی کمیونی کیشن، ٹرانسپورٹیشن، مالیاتی سیکٹر، بینکنگ ٹریڈ اور مارکیٹنگ کے شعبوں سمیت دیگر فیلڈ میں کام کر رہی ہیں، اس وقت مالیاتی ایس او ایز کی تعداد 18، انڈسٹریل اینڈ اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اینڈ منیجمنٹ میں 4، بنیادی ڈھانچے، ٹرانسپورٹ اور آئی ٹی سی میں 12، مینوفیچرنگ، کان کنی و انجینئرنگ میں 14، تیل و گیس میں 8، پاور میں 20 اور ٹریڈنگ و مارکیٹنگ کے شعبے میں 4 ایس او ایز ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بینکنگ شعبہ نے پرائیویٹ سیکٹر آنے کے بعد زبردست ترقی کی، وہ خسارے سے نکل کر منافع بخش شعبہ بن گیا۔
شمشاد اختر نے کہا کہ ان کمپنیوں میں سے کچھ کی مجموعی کارکردگی بد قسمتی سے اتنی اچھی نہیں رہی جتنی کہ اس سے توقع تھی، ان کی کارکردگی ان کی قوت و صلاحیت سے پست تر رہی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کی زیر ملکیت ان کمپنیوں سے سال 2019 میں کمرشل ایس ای ایز کا خسارہ 143 ارب روپے رہا، 2020 میں ملک کو 500 ارب کا نقصان ہوا، ایگری گیٹ لیول پر ملک کو 200 ارب کا نقصان ہوا، منافع بخش کمپنیوں سے ایگری گیٹ پروفٹ 330 ارب روپے تھا، جن میں سے ایک سو 85 ارب روپے آئل اینڈ گیس کمپنی سے حاصل ہوا۔
انہوں نے کہا کہ یہ اعداد و شمار 2020 تک کے ہیں جو اہم ہیں ، امید ہے کہ آئندہ 3 ماہ میں اپ ڈیٹڈ اعداد و شمار جاری کردیے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کمپنیوں میں مسائل کی وجہ اختیارات کی کمی، بیرونی مداخلت، کمزور انتظامیہ، محدود احتساب، ناموزوں عہدیداران ہیں، ان وجوہات کی بنا پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نقصانات ہوتے چلے گئے جس سے عوامی پیسے کا ضیاع ہوتا گیا۔
شمشاد اختر نے کہا کہ وزارت خزانہ نے بطور ان کمپنیوں کی حتمی مالک ہونے کے ناطے مشکلات میں ان کو ریسکیو کیا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس صورتحال میں یہ ضروری تھا کہ ان کو ایک حب میں لایا جائے، یہ حب حکومت کی زیر ملکیت کمپنیوں سے متعلق پالیسی اور سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ کا کسٹوڈین اور نگران ہو، جو وزارتوں کی مدد کے لیے بننے والی ٹاسک فورس کا کسٹوڈین ہو۔
انہوں نے کہا کہ مالی سال 2019 میں تمام ایس او ایز کے مجموعی محاصل کاحجم تقریباً40 کھرب روپے جب کہ ان کے اثاثہ جات کی بک ویلیو 190 کھرب روپے تھی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایس او ایز 4 لاکھ 50 ہزار ملازمین کو روزگارفراہم کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ معیشت کی بحالی کے لیے اقدامات کا سلسلہ جاری ہیں اور منافع بخش کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔
شمشاد اختر نے کہا کہ ایس او ایز کے حوالہ سے پالیسی ڈھانچہ اور ڈیزائن تیارکرلیا گیاہے ، اس ضمن میں تمام متعلقہ شراکت داروں کی مشاورت اور معاونت سے پالیسی بنائی جارہی ہے، مالیاتی نقصانات کے ازالے کے لیے وزارت خزانہ مدد فراہم کررہی ہے ، حکومت نے کئی ایس او ایز کو بہتر حالت میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایس او ایز کے حوالہ سے مجوزہ پالیسی میں بورڈ کے ممبران کا آزادانہ تقرر کیاجائے گا، بورڈ ممبران کو اپنے عہدے کی میعاد کی سیکیورٹی دی جائے گی، سی ای او کی تعیناتی بہت اہم ہے، اس پر نظرثانی کی جائے گی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومتی ملکیتی اداروں میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی، ان اداروں کی تنظیم نو کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایس او ایز کے حوالے سے کابینہ کی کمیٹی قائم کی گئی ہے ، کمیٹی حکومتی کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کام کرے گی۔انہوں نے کہا کہ ایس او ایز کے حوالے سے ماضی میں کئے گئے اچھے اقدامات کو جاری رکھاجائے گا۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اسٹریٹجک نوعیت کے اداروں کی ملکیت حکومت کے پاس رہے گی تاہم دیگر اداروں کی بتدریج شفاف انداز میں نجکاری کی جائے گی۔
0 کمنٹس:
Post a Comment