728x90 AdSpace

  • تازہ ترین

    Sunday, October 8, 2023

    آزادجموں وکشمیر کا مقدمہ



       ظالمانہ رجیم چینج نے ملک میں سب کچھ بدل کر رکھ دیا, جس کے نتیجہ میں فیڈریشن کمزور ہوئی ,مرکز  کی حکومت ختم کرنے کے بعد اس رجیم چینج  آپریشن کو روکنے اور پی ڈی ایم جماعتوں کے فوری انتحابات کے مطالبہ کے پیش نظر چئیرمین پی ٹی آئی سابق وزیراعظم عمران خان نے نے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی حکومتیں اس لیے ختم کر ڈالیں ادھر اسٹیبلشمنٹ نے وہاں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی پی ٹی آئی کی حکومتیں اٹھا کر باہر پھینک دی گئیں. آج پی ڈی ایم جماعتیں الیکشن سے بھاگ رہی ہیں یا اکیلی الیکشن کمپین کرنا چاہتی ہیں عمران خان کو اندر جیل میں رکھ کر وہ الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف سے خوفزدہ ہیں .رجیم چینج آپریشن کے بعد پنجاب اور خیبر پخوتنخواہ میں ن لیگ نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر  اپنے پسندیدہ بندوں کی پنجاب  میں اور مولانا فضل الرحمن نے اپنے بندوں کی خیبر پختواہ خواں میں نگران حکومت بنا لی 16ماہ کے بعد جو نگران سیٹ اپ چاروں صوبوں اور مرکز میں بنایا گیا وہ بھی پی ڈی ایم کے من پسند افراد پر مشتمل ہے.بلکہ اس میں ن لیگ کے نیب زدہ کرپٹ فرنٹ مین احد چیمہ اور فواد حسن فواد جیسے بیروکریٹس بھی موجود ہیں . پاکستان کی تاریخ میں یہ ایک بدترین ,بھیانک رجیم چینج آپریشن ہوا اور عوام کے اوپر تباہ کن مہنگائی سازش کے تحت مسلط  کی گئی لوگوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور عوام کے گھروں پر بھاری بجلی بلز بھیج کر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی منڈی میں کم ترین تیل کی قیمتوں کے باجود بے تحاشا اضافہ کرکے ملک میں  اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئیں.جس سے عوام کی اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئی.خودکشیوں کے دلخراش واقعات رونما ہونے لگے .ملک بھر میں عوام نے ٹیکسز کی بھرمار کے ساتھ مہنگی ترین بجلی کے بلز جمع کرانے سے انکار کر دیا اور اس پر شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے,گلگت بلتستان میں حکومت کے خاتمہ پر اور مہنگائی پر بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے عوام نے اسٹیبلشمنٹ پر شدید غم وغصے کا اظہار کیا بلکہ گلگت بلتستان کی علیحدگی کی باتیں بھی ہوئیں .گلگت بلتستان میں بجلی اپنی پیدا ہوتی ہے وہاں مہنگی بجلی کا ایشو نہیں ہے . دوسری طرف آزاد کشمیر میں ہائیکورٹ نے تمام پاکستانی سیاسی جماعتوں کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے.گزشتہ دنوں ہر شہر میں  لاکھوں عوام بجلی بلز جمع کرانے سے انکاری ہو گئے اور کشمیریوں نے تاریخ میں پہلی بار پاکستانی اسٹیبلشمنٹ,فیڈریشن کے خلاف اور اپنے ڈمی وزیراعظم انوارالحق کے خلاف ایسے  احتجاجی مظاہرے کیے جس نے دنیا بھر میں کشمیریوں کی آزادی کے ایشو کو اجاگر کردیا اب کی بار پاکستان کی طرف آذادکشمیر کے لوگ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سمندر کی طرح احتجاجاً امڈ آئے.آزاد کشمیر میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم کی گئی کشمیری عوام اس کے خلاف پہلے ہی شدید غصے میں تھے وہاں بھی کشمیری مستحقین کو عمران خان کے عوامی فلاحی منصوبوں کے تحت 12سے 14ہزار ماہانہ اورہیلتھ کارڈ جیسے منصوبوں سے ریلیف بھی مل رہا تھا,آزادکشمیر حکومت میں وزراء بےتحاشا کرپشن کرتے ہیں کشمیر کونسل کے تحت اربوں روپے کی کرپشن فرضی منصوبوں میں علیحدہ ہوتی ہے اس ساری کرپشن کا راستہ روکنے کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت سنجیدہ کوششیں جاری رکھے ہوئی تھی عوام بڑی حد تک مطمئن نظر آرہے تھے. کشمیری عوام انتہائی باشعور ہیں وہ سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں کو بہت بہتر سمجھتے ہیں.اس بار کشمیری عوام اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھل کر سامنے آگئی.بدقسمتی سے چند بکاؤ افراد نے اداروں میں کالی بھیڑوں نے ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کرکے رکھ دیا بلکہ پہلی دفعہ غیر ملکی قوتوں کی ایماء پر ملک اور عوام کے کے ساتھ وہ کھلواڑ کیا گیا جس کاخمیازہ پورا ملک بھگت رہا ہے .گیم اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ سے بھی نکل چکی ہے.ملک بھر میں جسطرح ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت جو مرکز, آزادکشمیر , گلگت بلتستان ,پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں حکومتیں بنائے ملک کو بہتر انداز میں چلارہی تھی ایک جنرل باجوہ نے امریکہ کےساتھ ملکر سب کچھ تباہ وبرباد کرڈالا ,پھر انہی پالیسیوں کا تسلسل رکھ ہم نے بہت زیادہ نقصان اٹھایا.ملک بھر میں پی ٹی آئی کے جسطرح کریک ڈاؤن کیا گیا ,اس جماعت کے سیاسی کارکنان کے گھروں پر نو مئی کے واقعہ کو جواز بنا کر ظلم و ستم کے جو  پہاڑ توڑے گئے . ائی ایم ایف کی سخت ترین ناقابل عمل شرائط قبول کر کے غیرملکی قوتوں کے ایجنڈے پر عمل درآمد ہوا .چند ذمہ دار افراد نے کرپٹ سیاستدانوں کے ٹولے کے ساتھ ملکر غیر ملکی مداخلت برداشت کر کے ذاتی مفاد اور چند ٹکوں کی خاطر  ملکی سالمیت کو جیسے داؤ پر لگایا , ہنستے بستے گلشن کو جیسے اجاڑ کر رکھ دیا گیا , اپنی عوام کا سکون جیسے غارت کر دیا گیا, جیسے ہم نے  سب کچھ تباہ و برباد کر ڈالا ,جیسےآج  خیبر پختونخوا کے  قبائلی علاقوں میں اور بلوچستان کے اندر جس طرح دہشت گردی کے واقعات دوبارہ  ہو رہے ہیں ,جس طرح انسانی جانیں بے دردی سے ضائع ہو رہی ہیں,اس ظالمانہ رجیم چینج آپریشن اور اسٹیبلشمنٹ کی غلط پالیسیوں کی مثال ماضی میں نہیں ملتی.درحقیقت یہ سب غیر ملکی قوتوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت کا نتیجہ ہے جس ایک سابق وزیراعظم  عمران خان پر 200کے لگ بھگ  بوگس مقدمات درج کر کے اڈیالہ جیل میں پابند سلاسل کر رکھا ہے.وہ وہی وزیراعظم تھا جس نے امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دینے اور اپنے اڈے دینے سے سے انکار کر دیا تھا بلکہ انٹرنیشنل سطح پر سیاسی ڈائیلاگ کو اگے بڑھاتے ہوئے امریکہ اور نیٹو فورسز کو افغانستان سے نکال باہر کیا اور ان کی درخواست پر محفوظ راستہ بھی فراہم کیا وہ اگر روس سے تیل گیس اور کچھ اناج گلہ لینے میں کامیاب ہو جاتا تو آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں میں نہ آٹا کی قلت ہوتی نہ تیل مہنگا ہوتا اور نہ ملک بھر میں بجلی مہنگی ہوتی نہ وہ جمہوری لیڈر جو عوام کو جوابدہ تھا اس طرح آئی ایم ایف کی شرائط کو من و عن تسلیم کر کے عوام کا گلا گھونٹتا نہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لاکھوں لوگوں کا اس طرح اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سڑکوں شاہراؤں پرسمندر نظر آتا نہ یہ لوگ پاکستان سے ناراض ہوتے نہ آج ہم آزادی  کشمیر کے بیس کیمپ کو کمزور کرتے آج ہم مقبوضہ جموں و کشمیر  کی آزادی  کا مقدمہ لڑنے کے قابل نہیں رہے, ہم نے اپنے ہی ملک میں اپنے ہی عوام پر  مقبوضہ ریاستوں سے بھی بڑھ کر  بدترین سیاسی تشدد اور ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہے.ہم نے نوازشریف ,شہبازشریف اور مریم نواز کی ایماء پر  سیاسی خواتین  اور صحافیوں کو بھی نہ بخشا , ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے عالمی سطح پر نہ صرف آوازیں بلند ہوئیں بلکہ ہماری دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی ہے .ہمارا ملک اس ظالمانہ رجیم چینج اپریشن کے بعد معاشی سیاسی,اخلاقی  ہر حوالہ سے زوال پذیر ہے. پتہ نہیں کیوں ہماری اسٹیبلشمنٹ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے.کہ  ہمارے چند ناعاقبت اندیش افراد نے حقائق سے نظریں کیوں چرا رکھی .؟ ہیں وہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ان علاقوں کو نظر انداز کیوں کر رہے ہیں.؟ انہیں کس نے حق دیا کہ وہ بیرونی قوتوں کی ایماء پر وہاں کی منتخب جمہوری حکومتوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیں.؟ اور وہاں ان کی ناقص حکمت عملی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے مصنوعی مہنگائی کا طوفان امڈ آئے ,ٹیکسز کی بھرمار سے بجلی بلز دینے سے قاصر غریب عوام کا سمندرتو امڈے گا , آج کشمیری عوام بے قابو ہیں.وہ شدید نفرت کررہے ہیں ,ان کی تقریریں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زہر اگل رہی ہیں وہ حقائق بیان کررہے ہیں . وہ پاکستان سے علیحدگی کی باتیں کررہے ہیں. افسوس آج پاک فوج کے گاڑیوں کو گلگت بلتستان اور نارتھ وزیرستان کے علاقہ میں عوام نے روک لیا اور  عمران خان کو رہا کروکے نعرے بلند کیے .کیا چند افراد نہیں سمجھتے کہ ہماری قابل فخر پاک فوج کی گاڑیوں کو وہاں روکا جانے لگے وہاں سے پاکستان سے آزادی مانگنے کی صدائیں اور نعرے بلند ہونے لگیں اس افسوس ناک صورتحال کا ذمہ دار کون ہے..؟؟بلاشبہ  ان سنگین  ترین حالات کو پیدا کرنے میں چند جرنیلوں اور  پی ڈی ایم کی جماعتیں بالخصوص شریف برادران زرداری اور فضل الرحمان کا کردار تاریخ میں سیاہ الفاظ سے لکھا جائے گا. جنہوں نے پاکستان کے اندر جمہوری حکومت کے خاتمے کے لیے غیر ملکی سازش اور مداخلت کو سپورٹ کرتے ہوئے  ملکی اور قومی مفادات یکسر نظر انداز کر کے اپنی اربوں کھربوں روہے کی  کرپشن کے کیسز کو معاف کرایا اور مزید اربوں روپے سمیٹے ,اور جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کرکے اقتدار پر چور دروازے سے چڑھ دوڑے اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی  سب سے بڑی سیاسی جماعت جس کی گلگت بلتستان آزاد کشمیر ، پنجاب ، خیبرپختونخوا اور مرکز میں منتخب جمہوری حکومتیں تھیں, جنرل باجوہ کے ساتھ مل کر غیر ملکی سازش کو کامیاب بنانے کے لیے ان پی ڈی ایم جماعتوں نے جو گھٹیا کردار ادا کیا اور پارلیمنٹ کو یرغمال بنا کے ذاتی مفادات کے لیے اور جموریت  کو نقصان پہنچانے کے  جو غلط قوانین,بلز  پاس کیے وہ ایک علیحدہ ظلم کی داستان ہے. آج ہم ازاد کشمیر کے عوام کا مقدمہ ان سطور پہ رکھ رہے ہیں ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے ہمیشہ آزاد کشمیر کے عوام اور مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام کے اندر الحاق پاکستان کی توانا آواز کو اہمیت دی اور اسے اجاگر کیا ہے. الحاق پاکستان کے حق میں ہم لکھنے والے آج کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے ہیں ,بلا شبہ اس پار الحاق پاکستان کا مطالبہ ماضی قریب میں زور پکڑ گیا تھا ,ہمیں خوشی محسوس ہوتی تھی کہ سارے کا سارا کشمیر بنے گا پاکستان لیکن نہیں چند بدقماش کرپٹ سیاستدانوں اور جرنیلوں نے ہماری پاکستانی عوام کے اس خواب کو چکنا چور کردیا ہے .

    ہم نے آزاد کشمیر میں ایسی اوازیں جوالحاق پاکستان کے مخالف ہوں ان کی نہ صرف مذمت کی بلکہ ایسے فتنوں کی زور قلم سے ہمیشہ سرکوبی کی! ہم نے موقر قومی اخبارات میں درجنوں کالم الحاق پاکستان کے حوالے سے اور آر پار کشمیری عوام کے حقیقی مطالبہ کے مطابق قلمبند کیے .آج ہمارے ضبط ٹوٹ گئے ہیں,ہمارے  سارے نظریات دفن ہوتے نظر آرہے ہیں .ہم کس منہ سے کشمیری عوام کو پاکستان کیساتھ الحاق کا کہہ سکتے ہیں..؟؟کشمیری عوام کیساتھ ہمارا کئی دہائیوں سے قلبی ,روحانی رشتہ ہے.ان کے دل پاکستان کے لیے ہمارے دل کشمیر کی آزادی کے لیے ایک ساتھ دھڑکتے ہیں.ان کا جینا مرنا ہمارے ساتھ ہے .جب ہم نے پاکستان میں اپنے ہی عوام کا جینا محال کردیا ہو, جب ہم یہاں رہنے والوں پر بنیادی سہولیات آسانی سے  فراہم کرنے پر قاصر ہوں ,جب ہم لوگوں کو سستا انصاف فراہم نہ کرسکیں.جب ہم عوام  پر اپنی ہی دھرتی محض سیاسی اختلاف رائے پر تنگ کردیں .جب ہم اپنے ملک میں انسانی حقوق کی کھلم کھلی خلاف ورزیاں  کرکے دنیا کو حیران کردیں ,جب ہم اپنے ملک کی سرزمین کو بے آئین کردیں ,جب ہم اپنی عدالتوں کے احکامات کو تسلیم نہ کریں ,جب ہم سیاسی مخالفت کی بناء پر ایک سیاسی مافیا کی ایماء پر عوام کے مقبول ترین جمہوری لیڈر پر اور اس پارٹی کے لیڈرز ورکرز پر دہشتگردی کے واقعات بناکر جیلوں میں ڈال دیں .جب ہم پورے ملک کو جیل میں بدل کر قانون و آئین کی دھجیاں اڑائیں تو پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں اے کشمیری بھائیو تم ہمارا حصہ ہو ,یا تم بھی اس ظلم وستم کا شکار عوام کے ساتھ ,اس بے آئین سرزمین پر ,ان مشکلات و مصیبتوں میں ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں.ہم آپ کو مزید پریشان نہیں دیکھنا چاہتے ,افسوس اب ہمارا موقف بدل چکا ہے ,ہمارے عوام نے ہمیشہ کشمیری عوام کے لیے جان مال کی قربانی دی, اپنا حق ادا کرنے کی کوشش کی لیکن اب ہم تمہارے ساتھ عملی تعاون کرنے یا ساتھ چلنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں .اب ہم دل پر ہاتھ رکھ کر یہ برملا کہنے پر مجبور ہیں کہ آر پار کے کشمیری عوام کی آزاد ریاست ہونی چاہیے ان کا کسی ملک سے الحاق ان کے قیادت پہ چھوڑ دیا جائے بھلا وہ پاکستان جیسے ایک ناکام ریاست کے ساتھ الحاق کیوں کریں گے .؟  پاکستان کا بھی یہی موقف ہے کہ یہ حریت لیڈرشپ اور ازاد کشمیر کی لیڈرشپ  پر چھوڑ دیا جائے کہ یہ پاکستان سے الحاق کریں یا بھارت کیساتھ کریں یا آزاد ریاست تشکیل دیں.افسوس آج ہم مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ لڑنے میں ہی ناکام نہیں ہوئے بلکہ ازاد کشمیر کو بھی اپنے ہاتھوں سے کھو رہے ہیں.گزشتہ دور حکومت میں سینئر صحافی حامد میر اور نسیم زہرا یہ بات ایک ٹی وی چینل پر ڈسکس کر چکے ہیں کہ جنرل باجوہ نے 25 صحافیوں کو بلایا اور اس نے کہا کہ ہم مقبوضہ کشمیر کے لیے بھارت سے نہیں لڑ سکتے  ہم ویسے بھی بھارت سے کسی قسم کی جنگ لڑنے سے قاصر ہیں ہمارے ٹینکوں میں تیل نہیں ہے ہمارے پاس بجٹ میں اس طرح رقم نہیں موجود..حامد میر نے کہا جنرل باجوہ باقاعدہ کشمیر کا سودا کر چکے ہیں. نسیم زہرا کو متوجہ کرکے کہہ رہے تھے میں کیا لفظ بول رہا ہوں "سودا" جنرل باجوہ باقاعدہ سودا کرچکے ہیں."

    قارئین ,اب آزاد کشمیر کے اندر احتجاجی تحریک جو زور پکڑ چکی ہے وہ خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ازاد کشمیر کے عوام کا اصل مسئلہ صرف مہنگی بجلی کے بھاری بلز جمع کرانے کا نہیں ہے ان کا دوسرا اس سے بڑا  مطالبہ جو عوامی جلسوں میں کھل کر سامنے ارہا ہے وہ یہ ہے کہ ازاد کشمیر میں چیف سیکرٹری اور ائی جی کی پوسٹ پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اپنے "بندے" لگا کر ہمیں کنٹرول کرنے اور ازاد کشمیر کے معاملات چلانا بند کرے .ہمارے کٹھ پتلی  وزیراعظم کو اور پورے سسٹم کو ڈیل کرنے کا جو طریقہ کار ہے وہ ختم کریں .وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں ہماری جمہوری حکومت جس طرح ختم کی گئی اور جس طرح کئی دہائیوں سے ازاد کشمیر کو ڈیل کیا جا رہا ہے اب ایسا نہیں چلے گا. ایک چیف سیکرٹری کے ماتحت ازاد کشمیر کا کٹھ پتلی وزیراعظم ہمیں قبول نہیں. وزیراعظم

    کشمیر کے خلاف عوام کا یہ مطالبہ زور پکڑ گیا ہے جس میں وہ نشاندہی کر رہے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی طرح ہمارے علاقے کو پاکستان کے دیگر اضلاع کے ساتھ اٹیچ کر کے ڈویژن کے انڈر کیا جا رہا ہے اور اسے ایک صوبہ بنانے کا جو پلان ہے وہ ہماری تاریخی شناخت , علاقائی ازاد آئینی  حیثیت کو ختم کرنے کی سازش ہے جو کام مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے کیا وہ پاکستان کرنے جا رہا ہے. ازاد کشمیر کی عوام کے مطابق تراڑ کھل تھانہ میں پاکستان کے شہر جھنگ سے ایس ایچ او بھیجا گیا ہے ادھر کوٹلی کے ایک تھانہ میں بھی  پاکستان سے ایک ایس ایچ او تعینات کیا گیا.جو ہماری ائینی حیثیت کے خلاف ہے جس طرح اس بار مقبوضہ جموں کشمیر کی ائینی حیثیت کو انڈیا نے ختم کیا اسی طرح پاکستان بھی ہماری اس ائینی حیثیت ختم کرنے کے درپے ہے یہ جو شہر شہر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر امڈ آیا ,یہ بے ہنگم ہجوم نہیں ہے یہ آزادکشمیر کے لاکھوں باشعور انسانوں کا اپنے حقوق کے لیے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو واضع پیغام ہے کہ یہ بھرپو احتجاج کا مقصد پاکستان اور بھارت دونوں ممالک سے آزادی چاہتے ہیں . کشمیر کے عوام کا پہلا بڑا مطالبہ یہی  ہے کہ ازاد کشمیر کی آئینی حیثیت کو چیلنج نہ کیا جائے اسے پاکستان کا صوبہ بنانے کی کوشش نہ کی جائے, جیسے مظفراباد باغ کو ان دو اضلاع کو ایبٹ اباد ڈویژن کے انڈر کرنے کوٹلی, منگلا , میرپور ,بھمبر کوگجرات ڈویژن کے ماتحت اور آزادکشمیر کا کچھ علاقہ جہلم ڈویژن کے تحت کرنے,پلندری,راولا کوٹ  حویلی کے اضلاع کو راولپنڈی ڈویژن کے تحت پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا جو ایڈمنسٹریٹو پلان ہے اس کو لاکھوں کشمیریوں نے مختلف  شہروں میں بڑے بڑے احتجاج کر کے مسترد کر دیا ہے. اور یہ مطالبہ بڑی شدت سے زور پکڑ رہا ہے کہ ازاد کشمیر کو اپنی شہ رگ  کہنے والے اور اس پار ازاد مقبوضہ جموں کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے والے پاکستان اور  بھارت ہمیں معاف کردیں ہم پر رحم کریں . اور دونوں اطرف سے ہمیں ازادی کے ساتھ اپنی تاریخ, اپنے  تہذیب و تمدن اور اپنے رہن سہن کے ساتھ جینے کا حق دیں. ازاد کشمیر کے مختلف شہروں میں  لاکھوں کشمیریوں کا جو احتجاج دیکھنے میں ایا ہے.وہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا , کشمیری عوام کہہ رہے ہیں اس ان غلامی کے اندھیروں کو ہم کسی صورت قبول نہیں کرتے ازاد کشمیر کے عوام کا جو استحصال کیا جا رہا ہے .ان کے علاقوں سے بجلی پیدا کر کے جو ائی پی پیز کو دی جا رہی ہے اور ان کے علاقوں میں پانی کی جس طرح قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ,جو پانی کشمیریوں کو مناسب سہولت سے محروم کرکے استعمال کیا جا رہا ہے وہ سراسر زیادتی کے مترادف ہے. اسی لیے کشمیر کے عوام نے مختلف علاقوں میں نہ صرف بجلی کے کھمبے اکھاڑ دیے بلکہ ان سے اپنی زمینوں میں کھمبے لگانے کا کرایہ بھی طلب کر لیا ہے .ظالمانہ رجیم چینج آپریشن کے تحت  جہاں ازاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے علاوہ مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت  ختم کی وہاں ہمارے ملک پاکستان کے اندر اداروں کے خلاف عوام کی نفرتیں بڑھیں, گلگت بلتستان اور ازاد کشمیر کے عوام کے اندر بھی پاکستان کے اداروں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی ہے. ہم ازاد کشمیر کے اندر بجلی کے منصوبوں مختلف ہائیڈرل پاور پراجیکٹس  کی پیداوار اور کھپت کے حوالے سے ائی پی پیز کے منفی کردار اور عوام کے حقوق کے حوالے سے جو مطالبات زور پکڑ چکے ہیں اس کا سرسری جائزہ لیتے ہیں 1968 جب پرانے میر پور شہر کی جگہ پر منگلا ڈیم  بنایا گیا تھا تب یہ معاہدہ ہوا تھا کہ کشمیریوں کو مفت یا بہت کم ریٹس پر بجلی فراہم کی جائے گی , یہاں ڈیم کی جگہ  کبھی مساجد قبرستان اور گھر آباد تھے . مقامی شہری کہتے ہیں کہ اج بھی جب پانی کی سطح کم ہوتی ہے تو کہیں مسجد کے مینار نظر اتے ہیں کہیں زندگی کے کچھ اثار نظر دکھائی دیتے ہیں.  ہے۔مہنگی بجلی کا مطلب صنعتی ترقی کا پہیہ روکنا اور لوگوں کو غربت اور بے روزگاری کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنا ہوتا ہے۔ آزاد کشمیر جہاں پن بجلی کے پرائیویٹ سیکٹر میں منصوبوں کے علاوہ صرف واپڈا تقریبا” 2400 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہےجس کی سالانہ آمدنی 3 کھرب روپے سالانہ سےزائد ہے لیکن یہاں کے لوگوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں اور وہ بجلی کے بڑھتے ہوئے ٹیرف سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔جس کا آزاد کشمیر کے لوگوں میں شدید رد عمل ظاہر ہورہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ حال ہی میں واپڈا نے آزاد کشمیر کیلئے بجلی کا بلک ٹیرف ریٹ2روپے 59 پیسے سے کوئی آٹھ گنا بڑھا کر اسے21 روپے فی یونٹ مقرر کر دیا ہے جو آزاد کشمیر میں 5 قسم کے ٹیکسز اور ٹیرف سلیب کے نتیجہ میں اوسط 50 روپے فی یونٹ سے بھی زائد صارفین کے گلے پڑے گا۔ واپڈا ٹیرف بڑھانے کی یہ جوازیت دے رہا ہے کہ پاکستان میں یہی فی یونٹ اوسط ٹیرف رائج ہے لہذا آزاد کشمیر حکومت سے بھی یہ بلک ٹیرف وصول کیا جائے گا۔۔ان کی یہ بات صرف اس صورت میں تسلیم کی جا سکتی ہے کہ اگر آزاد کشمیر میں پیدا ہونے والی پن بجلی آزاد کشمیر کی ضرورت سے کم پیدا ہو رہی ہوتی تو پاکستان میں مہنگے نرخوں پر پیدا ہونے والی بجلی آزاد کشمیر کی ضرورت پوری کرنے کیلئے مہیا کی جاتی تو پھر اسے پاکستان میں مہنگے داموں پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت کے برابر آزاد کشمیر حکومت کو 21 روپے فی یونٹ بیچنے کا جواز بن جاتا ۔ آزاد کشمیر میں صرف واپڈا کے زیر انتظام سرکاری سیکٹر میں منگلا ڈیم سے تقریبا” 1300میگا واٹ اور نیلم جہلم پراجیکٹ سے 969 میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔منگلا ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کی رواں لاگت ایک یا دو روپے فی یونٹ سے زائد نہیں ہے ۔اور آزاد کشمیر کی ضرورت صرف 400 میگا واٹ ہے، ایسی صورت میں آزادکشمیر میں پاکستان میں مہنگی پیدا ہونے والی بجلی کا ریٹ نافذ کرنے کا قطعا” کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ پاکستان میں تو اس توانائی کے بحران کی جڑیں ماضی کی غلط حکومتی پالیسیوں میں پیوست ہیں جس کے بھیانک نتائج آج پاکستان کے عوام بھگت رہے ہیں اور شائد ثواب کی خاطر آزاد کشمیر کے عوام کو بھی اس میں اس لئے گھسیٹا گیا ہے تاکہ ان کے پاکستان کے عوام کے ساتھ اتحاد، یکجہتی اور الحاق کے رشتے اور مضبوط ہو سکیں ۔ پاکستانی قوم اور ملک کی یہ بڑی تباہی اس وقت شروع ہوئی جب کوئی دس پندرہ سال قبل ہائیڈرل جنریشن جو بجلی کی پیداوار کیلئے قدرت کی طرف سے فری فیول کی بنا پر سستی ترین بجلی کا ذریعہ ہے اس کے پراجیکٹس ملٹی نیشنل سامراجی کمپنیوں کو لوٹنے کیلئے دے دیئے گئے اور مہنگے فیول والے ذرائع حکومت نے اپنے گلے میں ڈالے۔سابق  سکریٹری برقیات بتاتے ہیں انہوں نے  نہ صرف حکومت پاکستان کو اس پالیسی کے تباہ کن نتائج سے تحریری طور پر متنبہ کیا بلکہ اخبارات میں ایک مضمون بعنوان ” تاریک پاکستان اور پانی کی بردہ فروشی ” بھی شائع ہوا کہ اسی عرصہ میں ملک میں توانائی کا بحران پیدا ہوا تھا جس کے نتیجہ میں انڈیپنڈنٹ پرائیویٹ پاور پروڈیوسرز ( IPPs) کا طبقہ منظرعام پر آیا ۔انہوں نے چین اور یورپ سے بجلی کے وہ پلانٹ جو تیل سے چلتے تھے اور وہاں متروک کر دیئے گئے تھے وہ وہاں سے کوڑیوں کے مول لیکر یہاں لگا دیئے ۔جن سے انتہائی مہنگے داموں بجلی خرید کی جا کر لوگوں کو مہیا کی جا رہی ہے اور حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا گیا کہ ان کیلئے تیل مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوگی ۔ اور تیل کی قیمتیں بڑھنے سے بجلی کی نہ صرف قیمتیں بڑھیں گی بلکہ یہ بھی شرط ہے کہ اگر حکومت تیل مہیا نہیں کرتی اور بجلی پیدا نہیں ہوتی یا بجلی کی کھپت نہیں ہو رہی یا یہ بجلی پیدا بھی نہیں کر رہے ہیں پھر بھی حکومت ان پراجیکٹس کی پوری پیداواری استعداد کے مطابق فی یونٹ بجلی کی قیمت ان کارخانوں کو ادا کرنے کی پابند ہو گی۔۔۔ان کارخانوں میں بجلی پیدا نہ ہونے کے باوجود حکومت نے جو ادائیگی کرنی ہے وہ ساری دنیا کی یہ مقروض حکومت کبھی ادا نہیں کر سکتی ہے،اس قابل ادائیگی رقم کو فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کہا جاتا ہے جو سارے ملک میں لوگوں کے بجلی کے بلوں میں اضافی طور پر ڈالا جاتا یے۔اور قابل ادائیگی رقم کو ‘سرکلر ڈیٹ ‘کا نام دیا گیا ہے۔ جو اس وقت تک 6۔2 کھرب روپے ہے اور روز بروز اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کی ادائیگی کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ رقم لوگوں کے بلات میں ڈال کر بھتہ خوری کی شکل میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجرز کے نام پر عوام سے وصولی کی جا رہی ہے۔ یعنی کرپٹ مقتدر اشرافیہ کے جرائم کی سزا عوام کو دی جارہی ہے سابق صدر پرویز مشرف نے کہا تھا ان کمپنیوں کی پیداواری قیمت میں ایک سینٹ کے اضافہ کے عوض ایک ارب روپیہ رشوت کا ریٹ ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ نہ آئی کہ بھتہ خوری کی یہ رقم بمعہ نیلم جہلم سر چارجز آزاد کشمیر کے عوام سے بجلی کے بلوں میں کیوں وصول کئے جاتے رہے ہیں اور پھر واپڈا کے نام پر لوگوں سے وصول کر کے آزاد کشمیر کی حکومت اپنے خزانے میں کیوں ڈالتی رہی ہے؟  اس وقت کے سیکرٹری مالیات سے اس کے بارے جب پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ یکساں سلوک اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ آزاد کشمیر کے لوگوں کے پاکستان کے لوگوں سے محبت اور یگانگت کے رشتے اور مضبوط ہو سکیں اور انہیں کسی طور یہ احساس محرومی نہ ہو کہ ان کے کے ساتھ پاکستان کے عوام سے ہٹ کر کوئی امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں ہم آزاد کشمیر میں بجلی کے مقررہ ٹیرف کی طرف آتے ہیں۔ اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیئے کہ آزاد کشمیر میں واپڈا کی جانب سے بجلی کا ریٹ مقرر کرتے وقت پاکستان میں رائج بجلی کے ریٹس سے موازنہ کسی صورت میں نہیں کیا جا سکتا۔ منگلا ڈیم کی بجلی آزاد کشمیر میں آزاد کشمیر کے پانی سے سستی ترین ریٹ پر پیدا ہوتی ہے جو آزاد کشمیر میں صرف اس کی فی یونٹ رواں لاگت جو ایک یا دو روپے فی یونٹ ہے ،کے معیار پر ہی دی جا سکتی ہے کیونکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت جس خطہ میں قدرتی وسائل پیدا ہوتے ہیں ان کا پہلا حق استفادہ وہاں کے لوگوں کا ہوتا ہے اور بین الاقوامی ہیومن رائٹس چارٹر کے مطابق انہیں ایکسپلائیٹ کر کے انہیں نفع کمانے کی غرض سے لوٹا نہیں جا سکتا۔بلکہ آئین پاکستان میں تو درج ہے کہ فیڈرل حکومت بجلی کی پیداوار کیلئے کسی بھی صوبے میں بجلی پیدا کرنے کیلئے پن بجلی کے کارخانے تو لگا سکتی ہے لیکن ان پراجیکٹس سے صرف ان پر آنے والی ابتدائی لاگت اور رواں اخراجات وصول کر سکتی ہے اور ان پراجیکٹس میں پیدا ہونے والی بجلی سے جو منافع ہو گا اس کا سارا حق صرف اس صوبے کا ہوگا جہاں یہ پن بجلی گھر کام کر رہے ہیں جسے خالص منافع یا نیٹ ہائیڈل پرافٹ کہا جاتا ہے۔ یہ نہ پندرہ پیسے تھا نہ سوا روپے ہے بلکہ جی این قاضی فارمولا کے تحت بھی وہ تمام منافع ہے جو اس ڈیم کے اخراجات پورے ہونے بعد اب اس سے پیدا ہونے والی بجلی سے کمایا جا رہا ہے۔وہ آزاد کشمیر کے لوگوں کا حق ہے اور آئین پاکستان میں یہی فارمولا لکھا گیا ہے۔جس کے تحت آزاد کشمیر کو بطور استحقاق ملنے والا یہ خالص منافع انرجی مکس میں ڈال کر ہڑپ کرنا اور آزاد کشمیر کو اس سے محروم کرنا آئین پاکستان کی صریحا” خلاف ورزی ہے۔۔ آزاد کشمیر میں بننے والے دیگر پرائیویٹ پاور پراجیکٹس کو زیر بحث لائے بغیر آزاد کشمیرمیں سب سے پہلے تعمیر ہونے والے پراجیکٹ منگلا ڈیم میں پیدا ہونے والی بجلی کے حوالے سے ہی ٹیرف کے مسئلہ کو زیر بحث لاتے ہیں تاکہ اس مسلہ کو آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکے کہ آزاد کشمیر میں بجلی کاٹیرف مقرر کرنے کا کیا فارمولا اختیار کیا جاتا رہا ہے۔۔ منگلا ڈیم سے اس وقت1300 میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے اور آزاد کشمیر کی زیادہ سے زیادہ ضرورت 400 میگا واٹ ہے۔ پچاس سال پہلے بننے والے پراجیکٹ پرڈیڑھ ارب ڈالر جو اس وقت کے زیادہ سے زیادہ 5 ارب پاکستانی روپے بنتے تھے خرچ ہوئے تھے۔ ہائیڈل جنریشن کے پراجیکٹس پر ہونے والے اخراجات،اس پراجیکٹ کی پیداوار شروع ہونے سے پانچ اور زیادہ سے زیادہ دس سال کے عرصہ کے اندر وصول ہو جاتے ہیں اور پھر بجلی کی پیداوار پر صرف رواں اخراجات جو مشینری کی مرمت یا وہاں ملازمین کی تنخواہوں پر اٹھتے ہیں صرف وہی اخراجات گنے جاتے ہیں ۔جو آج بھی ایک یا دو روپے فی یونٹ سے زیادہ نہیں ہیں ۔ منگلا ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی جب آزاد کشمیر کو مہیا کی جانے لگی تو اس کی بلک سپلائی فی یونٹ رواں لاگت ایک روپے کے لگ بھگ تھی جو آزاد کشمیر کیلئے بلک ٹیرف مقرر کیا گیا ۔ جس میں وقتا” فوقتا” اضافہ کیا جاتا رہا اور منگلا ڈیم کی توسیع کے سال 2004 میں یہ 2روپے 59 پیسے فی یونٹ مقرر کیا گیا ۔یعنی آزاد کشمیر کو پن بجلی کا ریٹ مقرر کرنے کا فارمولا وہ نہیں تھا جو پاکستان میں بلات کا ریٹ مقرر کرنے کیلئے اختیار کی جاتا رہا ہے۔ کیونکہ آزاد کشمیر میں بجلی کے انتظام و انصرام کیلئے آزاد کشمیر حکومت کا اپنا سرکاری محکمہ برقیات موجود ہے جو آزاد کشمیر حکومت کے اخراجات پر چل رہا ہے اور ملازمین کو حکومت بجٹ سے تنخواہیں دیتی ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان میں تیل سے مہنگی بجلی بنانے کی وجہ اور وہاں کی ڈسکوز کے اخراجات بجلی کے بلات میں صارفین سے وصول کئے جاتے ہیں۔ جبکہ آزاد کشمیر میں جیسے کہ اوپر وضاحت کی گئی ہے کہ ابھی تک دو روپے 59 پیسے کی شرح منگلا ڈیم میں فی الوقت فی یونٹ رواں اخراجات کے فارمولے پر تعین ہوتے آئے ہیں۔لہذا یہاں آزاد کشمیر میں واپڈا وہ ٹیرف لاگو نہیں کر سکتا جو پاکستان میں لاگو ہوتا ہے۔،البتہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں واپڈا کی جانب سے رعایتی نرخوں پر ملنے والی بجلی کا فائدہ آزاد کشمیر کے لوگوں تک نہیں پہنچایا گیا بجلی کی قیمت خرید تو سستی رہی لیکن لوگوں سے وصولیاں پاکستان میں رائج ٹیرف کے مطابق ہی کی جاتی رہیں اور یہ سہولت لوگوں تک منتقل کرنے کے بجائے لوگوں کی جیبیں خالی کر کے آزاد کشمیر کی حکومتی آمدن کا ذریعہ بنا دیا گیا۔جو ناقابل تلافی اور ناقابل معافی جرم ہے۔ گلگت بلتستان میں آج بھی 2 روپے سے 5روپے فی یونٹ کے حساب سے گلگت کی حکومت لوگوں کو بجلی مہیا کر رہی ہے۔ جبکہ اب ہمارے بجلی کے بلات بھی لاہور سے پرنٹ ہو کر آ رہے ہیں۔اور آزادکشمیر حکومت کے ہاتھ ان کی مرض اور معائدہ کے ذریعے مکمل طور پر جکڑ دیئے گئے ہیں ۔آزاد کشمیر حکومت کو چاہیے کہ وہ ان تمام معاہدوں کو عوامی اور ریاستی مفادات کے خلاف ہونے کے فوری منسوخ کرے۔ کہ واپڈا کی جانب سے پاکستان میں مہنگی بجلی کے فی الوقت رائج ریٹ کے برابر آزاد کشمیر کا ٹیرف مقرر کرکے وصول کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے کہ پاکستانی کرپٹ مقتدرہ کی جانب سے غیر ملکی کمپنیوں سے کمشن لے کر پاکستانی عوام کیلئے جو موت کے کنویں کھودے گئے ان کنووں میں آزاد کشمیر کے بے گناہ عوام کو بھی دھکیلا جائے۔ صرف منگلا ڈیم جو آزاد کشمیر میں واقع ہے اس سے 1300 میگا واٹ، کھربوں روپے کی سالانہ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ اس میں سے یہاں کے لوگوں کا یہ حق بنتا ہے کہ انہیں 400 میگا واٹ بجلی اسی نرخ پر دی جائے جو آج منگلا ڈیم کی ٹربائینیں چلانے پر رواں خرچ آرہا ہے۔واپڈا استعمال کیلئے یہاں بجلی پیدا کر سکتا ہے لیکن اسے منافع اور کمائی کا ذریعہ نہیں بنا سکتا۔ رواں اخراجات سے زیادہ شرح پر ٹیرف کی وصولی آزاد کشمیر کے قدرتی وسائل اور ان سے پیدا ہونے والے مالی وسائل ملکی یا غیرملکی کارپوریٹ کمپنیوں کی لوٹ مار کے ضمن میں آئے گا جو نہ صرف آئین پاکستان میں درج بنیادی انسانی اور علاقائی حقوق اور ہائیڈرل جنریشن سے متعلق آئین پاکستان میں لکھے آرٹیکلز میں مقررہ اصولوں ، بلکہ یونائیٹڈ نیشنز ہیومن رائیٹس کے چارٹر کی بھی خلاف ورزی ہے۔ کہ کسی بھی خطے کے مقامی قدرتی وسائل کے استفادہ اور منافع سے وہاں کے لوگوں کو محروم کرنا دنیا میں سامراجی استحصال کہلاتا ہے۔

    ذرائع کے مطابق مظفرآباد پورے شہر اور گرد نواع میں یہی پانی استعمال ہو رہا تھا جب سے یہ منگلہ ڈیم بنا ہے مظفراباد شہر میں اس قدر پانی کی قلت پیدا ہو چکی ہے کہ شہر میں پانی پینے اور لوگوں کے نہانے کپڑے دھونے کے لیے اکثر لوگوں کے گھروں میں پانی نہیں ہوتا پانی کا ٹینکر پانچ سے 10 ہزار روپے میں مل رہا ہے یہاں سے پانی کو جہلم دریا میں پھینکا گیا جو کوہالہ کے قریب دلائی کیمپ سے پانی کو جا کر نکالا گیا جس کی وجہ سے نہ تو ازاد کشمیر کے لوگوں کو اس پراجیکٹ سے کوئی خاص فائدہ ہو رہا ہے اور ان کو پانی کی  شدید قلت کا سامنا ہے مظفراباد سے تقریبا 80 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے تیسرا پاور پراجیکٹ  جاگراں ہائیڈرل پاور پراجیکٹ جو 300 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے یہ بڑھا لی ڈسٹرکٹ کوٹلی میں ہے چوتھا ہائیڈرل پاور پراجیکٹ ہے جو 2010 میں بننا شروع ہوا تھا ادھر سے 100 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے لوگوں کی اونے پونے زمینیں خریدی گئی جہاں ڈیم بنا ہے اس کے ارد گرد کوئی خاص سیفٹی وال نہیں ہے دیہات کے بیچ میں یہ ڈیم بنایا گیا اس طرف سے کشتی میں سوار ہو کر یا کئی کلومیٹر کا سفر طے کر کے پیدل چل کر بچے سکول پڑھنے کوٹلی شہرپہنچتے ہیں.

    • Blogger Comments
    • Facebook Comments

    0 کمنٹس:

    Post a Comment

    Item Reviewed: آزادجموں وکشمیر کا مقدمہ Rating: 5 Reviewed By: sportstimesisb
    Scroll to Top